جوش ہر موج میں اچھال کا تھا
جوش ہر موج میں اچھال کا تھا
حوصلہ ہم میں بھی کمال کا تھا
لوگ کیوں اپنی سمت بھول گئے
سوئی کا رخ اگر شمال کا تھا
ہو گئے میرے راستے روشن
یہ اجالا ترے جمال کا تھا
میں نے بھی اپنے پھن نکال لئے
اس کا انداز اشتعال کا تھا
مسجدوں میں دعائیں ٹھہر گئیں
وقت شاید ابھی زوال کا تھا
نام محبوب پر ہی جاں دے دی
عشق تو حضرت بلال کا تھا
ہم بھی رکھتے تھے سر پہ تاج ظفرؔ
جب کرم رب ذو الجلال کا تھا