جو اترا پھر نہ ابھرا کہہ رہا ہے
جو اترا پھر نہ ابھرا کہہ رہا ہے
یہ پانی مدتوں سے بہہ رہا ہے
مرے اندر ہوس کے پتھروں کو
کوئی دیوانہ کب سے سہہ رہا ہے
تکلف کے کئی پردے تھے پھر بھی
مرا تیرا سخن بے تہہ رہا ہے
کسی کے اعتماد جان و دل کا
محل درجہ بہ درجہ ڈھہ رہا ہے
گھروندے پر بدن کے پھولنا کیا
کرائے پر تو اس میں رہ رہا ہے
کبھی چپ تو کبھی محو فغاں دل
غرض اک گو مگو میں یہ رہا ہے