جو تنگ آ کر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں
جو تنگ آ کر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں
ستم دیکھو کہ وہ بھی چھوٹتے پہچان لیتے ہیں
بہ قدر حوصلہ صحرائے وحشت چھان لیتے ہیں
مسافر ہیں سفر کے واسطے سامان لیتے ہیں
خدا چاہے تو اب کے قتل گہہ میں مشکل آساں ہو
ترے بیمار ناحق موت کا احسان لیتے ہیں
کہیں مرقد پہ جاتے ہیں کہیں گھر تک نہیں جاتے
کسی کو جان دیتے ہیں کسی کی جان لیتے ہیں
کدورت تاکہ رہ جائے سب اپنے دامن تر میں
شراب شوق ہم پینے کے پہلے چھان لیتے ہیں
ہماری شاعری زندہ ہوئی اے شادؔ مرنے پر
کہ شائق نقد جاں دے دے کے اب دیوان لیتے ہیں