جو ناشنیدہ رہے لفظ آج بولیں گے
جو ناشنیدہ رہے لفظ آج بولیں گے
شگوفہ ہائے تخیل زبان کھولیں گے
بلند ٹیلے ابھی درمیان پردہ ہیں
ہوا اک آئے گی سب اس کے ساتھ ہو لیں گے
قدیم اونچی عمارات پر نسب کتبے
زمیں پہ آئیں تو سوچوں میں قند گھولیں گے
نہ حادثات کی چادر سے ڈھک سکے اسباب
پرند جا کے بلندی پہ بھید کھولیں گے
جہاں پہ چھاؤں ہے آسیب ڈیرا ڈالے ہیں
نہ دھوپ چھوڑ کہ وہ سائے میں پرو لیں گے