جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا
جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا
بہ عجز شوق بہ حال خراب نکلے گا
جو رنگ بانٹ کے جاتا ہے تنکے تنکے کو
عدو زمیں کا یہی آفتاب نکلے گا
بھری ہوئی ہے کئی دن سے دھند گلیوں میں
نہ جانے شہر سے کب یہ عذاب نکلے گا
جو دے رہے ہو زمیں کو وہی زمیں دے گی
ببول بوئے تو کیسے گلاب نکلے گا
ابھی تو صبح ہوئی ہے شب تمنا کی
بہیں گے اشک تو آنکھوں سے خواب نکلے گا
مرے گناہ بہت ہیں مگر تقابل میں
اسی کا لطف و کرم بے حساب نکلے گا
ملا کسی کو نہ دانشؔ کچھ آرزو کے خلاف
پس فنا بھی یہی انتخاب نکلے گا