جو خدا کو اپنے میں نے کسی وقت بھی پکارا

جو خدا کو اپنے میں نے کسی وقت بھی پکارا
تو کسی کا کیا ہے ساجھا تو کسی کا کیا اجارا


مجھے زخمی کرتے کرتے ہوا زخمی آپ ظالم
بڑی مشکلوں سے میں نے ابھی مارا ہے پھٹارا


ہے خدا کے ذکر میں بھی تجھے اس قدر تکلف
یہ امور خیر میں بھی ارے واعظ استخارا


کوئی بانی جفا ہے کوئی بانی وفا ہے
مزا دیکھنا ہے کیا ہو ہے مقابلہ کرارا


ذرا اک جھلک ادھر بھی ذرا اک جھلک ادھر بھی
رہے تابہ حشر قائم ترے حسن کا ادارہ


بڑے حوصلے تھے پہلے بڑے ولولے تھے پہلے
جو عمل کا وقت آیا ہوئے آپ نو دو گیارا


تھی ہماری جتنی دولت اسے لوٹ لے گئے بت
یہ بتا رہے ہیں ہم کو وہ دکھا کے گوشوارا


یہ نئی نئی جفائیں یہ نئے نئے مظالم
جو خلش ہے وہ دوشیزہ جو لقب ہے وہ کنوارا


یہ چمن پہ چھا گیا ہے مرے مالی کا تلون
کہ بدل رہا ہے چولا شب و روز اب نظارا


ابھی کوچے کوچے باقی اثر درندگی ہے
کہ زمانہ کر رہا ہے ابھی خون کا غرارا


تری دل شکن نظر نے کیا پست حوصلوں کو
لگا خون تھوکنے وہ جو ذرا سا بھی کھنکارا


بھلا شوقؔ دیکھوں کیوں کر رخ پر شکن کا منظر
مرے دانت ہی کہاں ہیں جو میں کھا سکوں چھوارا