جو جوابوں سے بھرے تھے وہ سوالی ہو گئے

جو جوابوں سے بھرے تھے وہ سوالی ہو گئے
آخرش تو سارے برتن پھر سے خالی ہو گئے


اپنی مٹی میں دبے جو اٹھ نہ پائے وہ کبھی
دوسروں میں جو اگے وہ لا زوالی ہو گئے


نہ تھی خوابوں کی مرے اشکال نہ پیکر کوئی
تیری آنکھوں سے جو گزرے تو غزالی ہو گئے


پنکھڑی جب بند تھی تو تھا زر گل رائیگاں
اور کھولی پنکھڑی تو ڈالی ڈالی ہو گئے


ہیں پرندے بھی پریشاں پھول پتے بھی دکھی
باغ اجاڑا تھا جنہوں نے وہ ہی مالی ہو گئے


رہ گئے وہ بے نشاں جو راہ رسمی پہ چلے
جن کی راہیں تھی الگ وہ سب مثالی ہو گئے