جو ہو سکے تو مرے دل اب اک وہ قصہ بھی

جو ہو سکے تو مرے دل اب اک وہ قصہ بھی
ذرا سنا کہ ہے کچھ ذکر جس میں تیرا بھی


کبھی سفر ہی سفر میں جو عمر رفتہ کی سمت
پلٹ کے دیکھا تو اڑتی تھی گرد فردا بھی


بڑے سلیقے سے دنیا نے میرے دل کو دیے
وہ گھاؤ جن میں تھا سچائیوں کا چرکا بھی


کسی کی روح سے تھا ربط اور اپنے حصے میں تھی
وہ بے کلی جو ہے موج زماں کا حصہ بھی


یہ آنکھیں ہنستی وفائیں یہ پلکیں جھکتے خلوص
کچھ اس سے بڑھ کے کسی نے کسی کو سمجھا بھی


یہ رسم حاصل دنیا ہے اک یہ رسم سلوک
ہزار اس میں سہی نفرتوں کا ایما بھی


دلوں کی آنچ سے تھا برف کی سلوں پہ کبھی
سیاہ سانسوں میں لتھڑا ہوا پسینہ بھی


مجھے ڈھکی چھپی ان بوجھی الجھنوں سے ملا
جچی تلی ہوئی اک سانس کا بھروسا بھی


کبھی کبھی انہی الھڑ ہواؤں میں امجدؔ
سنا ہے دور کے اک دیس کا سندیسا بھی