جو دل نے کہہ دی ہے وہ بات ان کہی بھی نہ تھی

جو دل نے کہہ دی ہے وہ بات ان کہی بھی نہ تھی
یہ موج تو تہ دریا کبھی رہی بھی نہ تھی


جھکیں جو سوچتی پلکیں تو میری دنیا کو
ڈبو گئی وہ ندی جو ابھی بہی بھی نہ تھی


سرک گیا کوئی سایا سمٹ گیا کوئی دور
کسی کے عکس کی پیاسی کشش سہی بھی نہ تھی


سنی جو بات کوئی ان سنی تو یاد آیا
وہ دل کہ جس کی کہانی کبھی کہی بھی نہ تھی


نگر نگر وہی آنکھیں پس زماں پس در
مری خطا کی سزا عمر گمرہی بھی نہ تھی


کسی کی روح تک اک فاصلہ خیال کا تھا
کبھی کبھی تو یہ دوری رہی سہی بھی نہ تھی


نشے کی رو میں یہ جھلکا ہے کیوں نشے کا شعور
اس آگ میں تو کوئی آب آگہی بھی نہ تھی


غموں کی راکھ سے امجدؔ وہ غم طلوع ہوئے
جنہیں نصیب اک آہ سحر‌ گہی بھی نہ تھی