جو بھی تیرے قریب ہو جائے
جو بھی تیرے قریب ہو جائے
اس کی صورت عجیب ہو جائے
دل کا میدان ناپنے کے لیے
وہ سراپا جریب ہو جائے
حب الفت کرے کوئی ایجاد
دشمن جاں حبیب ہو جائے
نبض بھی دیکھے حال بھی پوچھے
کاش دلبر طبیب ہو جائے
بھوک کا کچھ اسے بھی ہو احساس
وہ ستم گر ادیب ہو جائے
گفتگو کے یہ نقرئی جھٹکے
باؤلا بھی خطیب ہو جائے