جتنا چاہوں گی تم وہاں تک ہو

جتنا چاہوں گی تم وہاں تک ہو
اب بتاؤ کہ تم کہاں تک ہو


نارسائی ہی جگ ہنسائی ہے
ہاں رسائی کی تم کماں تک ہو


بات اچھی بھی ہے مگر پھر بھی
اس بڑھاپے میں تم جواں تک ہو


اپنی موج ہوس کے عرصے میں
ٹوٹی کشتی کے بادباں تک ہو


آج کے دور میں مکاں کیسا
آسمانوں کے آسماں تک ہو


اپنی ہستی میں بد گمانی تھی
سانس میں سانس کے گماں تک ہو


عمر کا حادثہ شجر کیا تھا
اک کلی ہو تو باغباں تک ہو


بد گمانی کا ڈول ڈال کے دیکھ
عرش پر تم فقط زیاں تک ہو


ماورا ہے یہاں نہ ماسوا کو
تم جو باقی ہو بس گماں تک ہو