جسم کی قید میں ہوں کشمکش ذات میں ہوں
جسم کی قید میں ہوں کشمکش ذات میں ہوں
ایک سکے کی طرح کاسۂ خیرات میں ہوں
تم سے ملنے کے لیے تم سے جدا ہوتا ہوں
کیا کروں جان وفا نرغۂ حالات میں ہوں
کل کا دن کیوں نہ رکھیں ترک تعلق کے لیے
آج کچھ میں بھی تمہاری طرح جذبات میں ہوں
کار تیشہ بھی وہی ہے مرا پیشہ بھی وہی
میں ابھی دور غلامی ہی کے حالات میں ہوں
ذرے ذرے مرے اٹھ اٹھ کے قدم لینے لگے
وادیٔ قیس میں کچھ ایسے مقامات میں ہوں
اب مری سمت کوئی آنکھ اٹھاتا بھی نہیں
جب سے دیکھا ہے تجھے میں بھی حجابات میں ہوں
پردۂ شعر سے بولے ہے مرا یار ثناؔ
میں ہی قرآن میں انجیل میں تورات میں ہوں