جس راہ سے بھی گزر گئے ہم
جس راہ سے بھی گزر گئے ہم
ہر دل کو گداز کر گئے ہم
جلوے تھے کسی کے کار فرما
ہر نقش میں رنگ بھر گئے ہم
کیا جانیے کیا تھا اس نظر میں
الجھے تو سنور سنور گئے ہم
ہم بھانپ گئے تھے رنگ محفل
کہنے کو تو بے خبر گئے ہم
ہر دل تھا اداسیوں کا معبد
ہر گام ٹھہر ٹھہر گئے ہم
بے مہریٔ دوست تلخی زیست
کس کس سے نباہ کر گئے ہم
امید وفا پہ جینے والو
امید وفا میں مر گئے ہم