جس نے نفرت ہی مجھے دی نہ ظفرؔ پیار دیا
جس نے نفرت ہی مجھے دی نہ ظفرؔ پیار دیا
میں نے سب کچھ اسے کیوں ہار دیا وار دیا
اک نظر نصف نظر شوخ نے ڈالی دل پر
اور اس دشت کو پیرایۂ گلزار دیا
وقت ضائع نہ کرو ہم نہیں ایسے ویسے
یہ اشارہ تو مجھے اس نے کئی بار دیا
زندہ رکھتا تھا مجھے شکل دکھا کر اپنی
کہیں روپوش ہوا اور مجھے مار دیا
کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے
صبح کی سیر نے مجھ کو دل بیمار دیا
زردیاں ہیں مرے چہرے پہ ظفرؔ اس گھر کی
اس نے آخر مجھے رنگ در و دیوار دیا