جس نے خون سے شریعت کو توقیر دی

آقا کریم ﷺ نے چھ برس کی عمر میں اپنی بچیس برس کی جواں سال والدہ کی تدفین اپنے ننھے ہاتھوں سے بے آب و گیا صحرا میں صرف ایک کنیز کی مدد سے فرمائی۔ دو سال بعد وہ دادا بھی داغِ مفارقت دے گئے جو شفقت کا سائبان تھے۔ جوان ہوئے تو تین شیر خوار بیٹوں کی وفات کا غم دیکھا۔ کفار کے مظالم اور ناقابلِ تصور مصائب کے درمیان ایک ہی سال میں  حضرت خدیجہ  رضی اللہ عنھا    بھی بچھڑ گئیں،  جن سے آنحضرت ﷺ کو سب سے بڑھ کر محبت تھی اور وہ چچا بھی چلے گئے جو باپ کی طرح چاہتے تھے۔ تئیس، ستائیس اور تیس برس کی بیٹیوں کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی۔ پانچ برس کے ایک نواسے کو بھی خود دفنایا اور بیٹوں سے بڑھ کر عزیز دو نواسوں کی مظلومانہ شہادت کی خبر بھی حضرت جبرئیلؑ سے سنی۔ حمزہ  رضی اللہ عنہ کہ جو شفیق چچا بھی تھے، محبوب بھائی بھی تھے اور دست راست بھی ، چھین لیے گئے۔ مصعب بن عمیر اور سعد بن معاذ جیسے لاڈلے اور پیارے اصحاب کی جدائی دیکھی۔ جعفر طیار جیسا بھائی اور زید بن حارث جیسا منہ بولا بیٹا وطن سے دور شہید ہوئے۔رضوان اللہ علیھم اجمعین۔

 

ان سب مصائب پر گریہ بھی فرمایا لیکن رحمت کے سمندر کی لہریں بلند ہوتی گئیں اور اصولوں کے لیے ڈٹ جانے کا جذبہ بھی بڑھتا چلا گیا۔ تاریخ میں تن تنہا بڑی بڑی ریاستیں کھڑی کرنے والے بھی کئی نام مل جائیں گے اور سماجی، اخلاقی اور روحانی انقلاب برپا کرنے والے بھی لیکن صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے کہ دونوں کام ایک ساتھ کیے اور اس طرح کیے کہ انتقال کے بعد بھی قادسیہ و یرموک جیسی فتوحات ملتی رہیں اور اخلاقی اصولوں کی خاطر کربلا کے میدان بھی سجتے رہے۔ دنیا کا کوئی فاتح نہیں کہ جس کی شاندار ترین سیاسی و عسکری فتوحات اس کے اس دنیا سے جانے کے بعد ہوئی ہوں اور کوئی اخلاقی مصلح ایسا نہیں کہ جس کی تعلیمات کے لیے جان و مال اور خاندان کی قربانیوں کا ایسا سلسلہ چلا آرہا ہو۔

 

آج ابوبکر صدیق، عمر فاروق، علی بن ابی طالب، خالد بن ولید، ابو عبیدہ بن الجراح، سعد بن ابی وقاص، سعد بن معاذ  یا عمرو بن العاص ، رضوان اللہ علیھم اجمعین  کی حکمت، حکومت اور سالاری کسی تہذیب کی تاریخ کے کسی حاکم یا سالار سے کم تسلیم نہیں کی جاتی، یہ سب انسانی تاریخ کے بہترین حکمران یا جرنیل مانے جاتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ نا ہوتے تو یہ سب کون تھے؟ ایک دور افتادہ بے نظم و نسق صحرا میں ایک چھوٹی سی قبائلی شہری ریاست کے کچھ جوان ،کہ جن کے اجداد میں بھی ان جیسی ذہانت اور صلاحیت رکھنے والے سینکڑوں ہزاروں لوگ کچھ کیے بنا مرگئے اور آج گمنام ہیں۔ صرف سیدّنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھئے کہ جن کی ریاست اور فتوحات سائرس سے نپولین تک ، سب کے لیے باعث رشک ہیں ، اگر  رسول اللہ ﷺ کے دامنِ رحمت میں نا آتے تو قریش کی ایک چھوٹے سے خاندان کی سرداری سے آگے نا بڑھتے۔ تاریخ میں ایسی شخصیت سازی کی ایک جھلک بھی آپ کسی اور مثال میں نہیں دکھا سکتے۔

 

یہی معاملہ جو ریاستِ محمد ﷺ کا ہے، رحمتِ محمد ﷺ کا بھی ہے۔ ابوبکر صدیق و علی المرتضیٰ سے عبدالقادر جیلانی و معین الدین چشتی تک کتنے ہی روحانی کوہ گراں،علی و  عبداللہ بن مسعود سے غزالی و ابن تیمیہ تک علم کے سب پہاڑ ۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کی نمود سے زیادہ کچھ نہیں۔

 

نبوت کی ریاست اور نبوت کی رحمت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایک کے بغیر دوسری جہت نامکمل اور بے معنی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اتنی بڑی شخصیت کو چھوٹے اور تنگ حوالوں سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نا تو سکندر و سیزر تھے کہ فقط جاہ و جلال کے لیے لڑتے ہوں اور نا ہی نیلسن منڈیلا یا گاندھی کہ لڑنے سے ہی خائف ہوں۔ یہ سب لوگ اور ان کی اقدار رسول اللہ کے ادنیٰ نوکروں کے مقابل بھی بے انتہا ہیچ ہیں۔ جنگ زندگی کی ناقابل تردید حقیقیت ہے۔ ظلم، استحصال اور ناانصافی کے خلاف جنگ بھی اقا کی رحمت ہی کا مظہر ہے اوریہ  آپ ﷺ کی رحمت ہی ہے کہ جس کے صدقے   آج بھی امت کا کوئی طبقہ  باطل اور جھوٹ ، ظلم و استبداد کے خلاف بر سرِ پیکار  ہے۔

 

اگر ہم ان غزوات ، اور جدوجہد کو فخر سے قبول نہیں کر سکتے تو یاد رکھیے کہ اسی  معذرت خواہانہ  و مدافعانہ اسلام نے ہمیں اس نہج پر پہنچایا ہے۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ورثے میں 9 تلواریں دے کر گئے اس امت کو ، جو ان کے حجرے میں وصال کے وقت لٹکی ہوئی تھیں ۔ جہاد میں ہی عزت ہے ، نشانوں پر نظر رکھنے میں عظمت ہے ، اور گھوڑوں کو تیار رکھنے میں سالمیت ہے ۔

بےشک عزت اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور مومنین کے لیے۔ یہ بزدل، موت سے خوف کھانے والی ، تکاثر کی چاہ میں برباد ہونے والی امت ، ہمارے رسول کی امانت دار تو نہیں ۔ یہ خوف اور دنیا کی چاہ تو ہمیں کسی اور سمت سے انجیکٹ کی گئی ہے۔

اقبال نے بھی کہا تھا ،

وہ نبُوّت ہے مسلماں کے لِیے برگِ حشیش

جس نبُوّت میں نہیں قُوّت و شوکت کا پیام

متعلقہ عنوانات