جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
میاں چنوں سے میاں امجد محمود چشتی نے سوال اُٹھایا ہے:
’’ایک لفظ ہے’مَغوی ‘۔ ہم تو پیدا ہوتے ہی سننے لگے تھے کہ یہ لفظ مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے، یعنی وہ شخص جو اغوا ہوجاتا ہے۔ مگر جب لغت سے رجوع کرتے ہیں تو وہاں یہ لفظ اغوا کار کا مطلب دے رہا ہوتا ہے، اغوا کرنے والا۔ یہ تو بالکل ہی اُلٹ ہوگیا۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیے‘‘۔
ارے صاحب! اِغوا کا تو مطلب ہی گمراہ کرنا ہے، اس سلسلے میں راہ نمائی کیسی؟ چشتی صاحب نے شاید ہمیں ’خرکار‘ جان کر اصلیت جاننے کو ہم سے رجوع کیا ہے، ورنہ لغت سے تو پہلے ہی رجوع کر چکے تھے۔ اب یہاں ایک نیا قضیہ کھڑا ہوگیا۔ ہم خرکار ہیں بھی یا نہیں؟ سو، اس سلسلے میں لغت سے رجوع کیجیے تو ’خرکار‘ کا مطلب ملے گا ’گدھوں کا گلہ بان یا گدھے کے ذریعے سے روزی کمانے والا‘۔ الحمدللہ ہم گدھوں کے گلہ بان نہیں، خود گدھے ہیں۔ سو محنت کرکے روزی روٹی کما لیتے ہیں۔ ہماری گلہ بانی اور لوگ کیا کرتے ہیں۔
وطنِ عزیز میں ’خرکار‘ کا لفظ مجازاً اُن گدھوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو بچوں کو اغوا کرکے ان سے جبری مشقت لیتے ہیں یا انھیں بھیک مانگنے پر مجبور کرکے اُن کی بھیک کی کمائی خود کھاتے اور’دوسروں کو اپنی خرمستیاں‘ دکھاتے ہیں۔ ’خر مستیاں‘ لغت کی رُو سے ایسے مست یا مدہوش شخص کی حرکات ہیں جو دولت یا طاقت کے نشے میں آپے سے باہر اور بے قابو ہوجائے۔
یہ بھی بڑی اچھی بات ہے کہ جناب امجد محمود نے پیدا ہوتے ہی اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول کا فرق سیکھنا شروع کردیا تھا۔ ورنہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ مرتے مر جاتے ہیں مگرفاعل و مفعول میں فرق نہیں کر پاتے۔ البتہ ہمارے عباس تابشؔ صاحب کچھ کچھ فرق جان گئے ہیں:
ستم تو یہ ہے کہ پُتلی بٹھا کے مسند پر
کہا گیا ہے یہی فیصلہ عوام کا ہے
عربی میں ’غَوَی یغوی‘ کا مطلب ہے گمراہ ہونا، محروم ہونا، یا ہلاک ہونا۔ اِغوا کا لغوی مطلب گمراہ کرنا یا بھٹکانا ہے۔ اردو میں اِغوا کا ایک مطلب بہلا پھسلا کر، یعنی گمراہ کرکے، کسی کو بھگا لے جانا بھی ہے۔ بہلائے پھسلائے بغیر اور بالجبر بھگا لے جانے یا اُٹھا لے جانے کو بھی اِغوا ہی کہا جاتا ہے۔ اس اِغوا کے بعد بعض اوقات تاوان وصول کرکے یا ہاتھ پیر توڑ کے آزاد بھی کردیا جاتا ہے۔ تاوان نہ ملے تو قیدِ زندگی سے بھی آزاد کردیتے ہیں۔ مگر جہاں تک جناب امجد محمود چشتی کے سوال کا تعلق ہے تو چشتی صاحب! لغت کا کہا ہی ٹھیک ہے۔ مُغوی (میم پر پیش کے ساتھ) اِغوا کرنے والے کو کہتے ہیں، یعنی اِغوا کنندہ یا اِغوا کار کو۔ ہمارے ذرائع ابلاغ نے ذاتی لغت ایجاد کرکے جس مظلوم پر ’مُغوی‘ ہونے کا بہتان دھر رکھا ہے، وہ دراصل ’مُغویٰ‘ ہے۔ ی پر کھڑے زبر کے ساتھ۔ پہلے اسی طرح لکھا جاتا تھا۔ مگر شاید ایک عرصے تک کھڑے رہنے کے بعد کھڑا زبر کھڑے کھڑے تھک کر بیٹھ گیا۔ لوگوں نے مُغویٰ کو مُغوی بلکہ میم پر زبر کے ساتھ مَغوی پڑھنا اور لکھنا شروع کردیا۔کچھ ایسا ہی معاملہ ’متوفی‘ کے ساتھ بھی ہوا۔ ’متوفّی‘ (مُ تَ وَف فی)کا مطلب ہے وفات دینے والا، جو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ فوت ہوجانے والے کو ’متوفی‘ نہیں ’متوفّیٰ‘(مُ تَ وَف فا) کہا جاتا ہے۔ یعنی وفات پانے والا۔ یہاں بھی ’ی‘ پر کھڑا زبر ہے۔ فوت ہونے والا یہ دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہوگا کہ وفات پاکر بھی وہ ذرائع ابلاغ میں وفات دینے والا ٹھیرایا جارہا ہے۔ ’دم بخود رہ جانا‘ گویا ’دَم‘ یعنی سانس روک کر بیٹھ جانا، خاموش ہوجانا اور ساکت رہ جانا ہے۔ وفات پانے والے میں یہ تینوں کیفیات فوت ہوتے ہی پیدا ہوجاتی ہیں، مگر داد دیجیے شعرائے کرام کو کہ وہ فوت ہوجانے یا مقتول بن جانے کے بعد اپنی ان کیفیات کا باعث بھی تلاش کرلیتے ہیں، جیسا کہ سرورؔ بارہ بنکوی مرحوم و مقتول نے کیا۔ آپ نے فرمایا، اور شعر سے ظاہر ہے کہ مقتول ہو کر فرمایا:
دم بخود ہوں اب سرِ مقتل یہ منظر دیکھ کر
میں کہ خود مقتول ہوں، لیکن صفِ قاتل میں ہوں
سرورؔ زندہ ہوتے تو یہ عاجز اپنے چھوٹے منہ سے ایک بڑی بات کہتا کہ مصرعِ اولیٰ میں مقتل کی جگہ محشر کردیجیے۔ کیوں کہ حدیثِ پاک کی رُو سے اگر دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل آجائیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمیوں کی صف میں ہوں گے۔
ذرائع ابلاغ اگر اغوا شدگان کے لیے مُغویٰ اور وفات یافتگان کے لیے مُتوفّیٰ لکھنا شروع کردیں تو انھیں صنفی امتیاز سے بھی نجات مل جائے گی، کیوں کہ ایک ہی لفظ مرد اور عورت دونوں کے لیے کافی ہوگا۔ مغویہ یا متوفیہ لکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لغت میں نت نیا اضافہ کرنے یا زبان کے نئے نئے قواعد ایجاد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ کام ماہرینِ لسانیات یا قواعدِ زبان کے شناور کریں تو زیبا ہے۔ لاعلمی اور جہل کی بنا پر ’عوام‘ کو مؤنث قرار دے ڈالنا یا اِقدام کرنے کی جگہ ’اِقدام اُٹھانا‘ رائج کردینا اس زمرے میں نہیں آتا۔ یہ حماقتیں صرف اس وجہ سے رواج پا رہی ہیں کہ ہمارے ماہرینِ ابلاغیات جس زبان میں ابلاغ کررہے ہیں اس زبان کے ماہر ہونا تو دُور کی بات ہے، زبان کے بنیادی قواعد سے بھی آشنا نہیں۔ بقولِ ماچسؔ لکھنوی:
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
یہی وجہ ہے کہ ان سے ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں جس کے لطیفے سماجی ذرائع ابلاغ پر گردش کرتے رہتے ہیں۔ ’کتابچہ‘ کو ایک ہی خبر میں کئی بار کُتّابچّہ پڑھنے کا لطیفہ ایک بہت بڑے برقی ذریعۂ ابلاغ کے قومی خبرنامے میں رُونما ہوا، جس کا بصریہ آپ ’یوٹیوب‘ پر آج بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ انگریزی، جرمن، فرانسیسی، عربی، فارسی یا روسی زبان میں ابلاغ کا فریضہ ایسے شخص کو سونپ دیا جائے جسے ان زبانوں کے قواعد سے واقفیت ہی نہ ہو۔ یہ تماشا صرف ہمارے ذرائع ابلاغ میں نٹوں کے تماشے کی طرح دکھایا جاتا ہے۔ شرم کی بات یہ ہے کہ اس پر شرماتے بھی نہیں، اورمزید بے شرمی یہ کہ ان اداروں کی نظر میں زبان و بیان کی دُرستی پر نظر رکھنے والا مقرر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔
برسوں پہلے ایک قصہ پڑھا تھا۔ مولانا چراغ حسن حسرتؔ کے تربیت یافتہ کسی نامور صحافی نے (جن کا نام اس وقت بھول رہا ہے) بتایاکہ حسرتؔ صاحب زبان و بیان کی درستی ہی پر نہیں الفاظ کے انتخاب پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔ ابتدا میں اپنے شاگرد کی ہر تحریر پر سُرخ قلم چلا چلا کر مولانا تمام صفحات کو لہولہان کردیا کرتے تھے۔ آخر وہ وقت بھی آیا جب پوری تحریر میں صرف ایک غلطی پر سُرخ قلم چلا۔ ایک سیاسی تجزیہ لکھتے ہوئے اُنھوں نے ایک فقرہ لکھا: ’’ہمارے نقطۂ نظر کے مطابق صورتِ حال…‘‘ مولانا نے سُرخ قلم سے اس فقرے کو یوں تبدیل کردیا: ’’ہمارے زاویۂ نگاہ سے صورتِ حال…‘‘ اس اصلاح پر یہ بھڑک اُٹھے، مولانا سے کہنے لگے:
’’آپ کو تو صرف سُرخ قلم چلانے کا شوق ہے۔ بھلا نقطۂ نظر کو زاویۂ نگاہ میں تبدیل کردینے سے کیا فرق پڑگیا؟‘‘
مولانا نے فرمایا: ’’نقطہ ایک ٹھوس اور جامد چیز ہے جو بدل نہیں سکتا۔ سیاسی صورتِ حال ہر آن بدلتی رہتی ہے۔ بدلتی صورتِ حال میں زاویۂ نگا ہ بھی بدل سکتا ہے‘‘۔