جس کو جیسا بھی ہے درکار اسے ویسا مل جائے
جس کو جیسا بھی ہے درکار اسے ویسا مل جائے
تو میسر ہو مجھے اور تجھے دنیا مل جائے
سنگ سے سنگ کے ٹکرانے کا منظر دیکھوں
کبھی ایسا ہو کہ تجھ کو کوئی تجھ سا مل جائے
یہ دھڑکتا ہوا دل اس کے حوالے کر دوں
ایک بھی شخص اگر شہر میں زندہ مل جائے
سخت سردی میں ٹھٹھرتی ہے بہت روح مری
جسم یار آ کہ بچاری کو سہارا مل جائے
شہر کی بھیڑ مجھے تیرا بلاوا منظور
شرط یہ ہے مرا کھویا ہوا صحرا مل جائے
تو خدا ہے تو مجھے کفر میں مستحکم کر
کہ مجھے راز صنم خانۂ دنیا مل جائے
ہم تو بس دھوپ کی شدت میں کمی چاہتے ہیں
کب کہا ہے کہ کہیں راہ میں سایا مل جائے
اپنے آئینۂ توحید میں اللہ میاں
دیکھتے رہیے کوئی آپ ہی جیسا مل جائے
فصل شعر آئی ہے بازار سخن میں دیکھ آؤ
فرحتؔ احساس بھی شاید کوئی تازہ مل جائے