جن خواہشوں کو دیکھتی رہتی تھی خواب میں

جن خواہشوں کو دیکھتی رہتی تھی خواب میں
اب لکھ رہی ہوں ان کو حقیقت کے باب میں


اک جھیل کے کنارے پرندوں کے درمیاں
سورج کو ہوتے دیکھا تھا تحلیل آب میں


خوابوں پہ اختیار نہ یادوں پہ زور ہے
کب زندگی گزاری ہے اپنے حساب میں


اک ہاتھ اس کا جال پہ پتوار ایک میں
اور ڈوبتا وجود مرا سیل آب میں


پروائی چل کے اور بھی وحشت بڑھا گئی
ہلکی سی آ گئی تھی کمی اضطراب میں


آزاد ہیں تو باغ کا موسم ہی اور ہے
خوشبو ہے تیز رنگ بھی گہرا گلاب میں


اپنی زمیں کی آب و ہوا راس ہے مجھے
میرے لیے کشش نہیں کوئی سراب میں


دیکھو جنوں میں ان کے کھلونے نہ توڑنا
تم کو رقم کریں گے یہ بچے کتاب میں