جیون مجھ سے میں جیون سے شرماتا ہوں

جیون مجھ سے میں جیون سے شرماتا ہوں
مجھ سے آگے جانے والو میں آتا ہوں


جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں
دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں


سر سے سانسوں کا ناتا ہے توڑوں کیسے
تم جلتے ہو کیوں جیتا ہوں کیوں گاتا ہوں


تم اپنے دامن میں ستارے بیٹھ کر ٹانکو
اور میں نئے برن لفظوں کو پہناتا ہوں


جن خوابوں کو دیکھ کے میں نے جینا سیکھا
ان کے آگے ہر دولت کو ٹھکراتا ہوں


زہر اگلتے ہیں جب مل کر دنیا والے
میٹھے بولوں کی وادی میں کھو جاتا ہوں


جالبؔ میرے شعر سمجھ میں آ جاتے ہیں
اسی لیے کم رتبہ شاعر کہلاتا ہوں