جیت اور ہار کا امکان کہاں دیکھتے ہیں
جیت اور ہار کا امکان کہاں دیکھتے ہیں
گاؤں کے لوگ ہیں نقصان کہاں دیکھتے ہیں
جب سے دیکھا ہے ترے چہرے کو اس شہر کے لوگ!
پھول باغیچہ و گلدان کہاں دیکھتے ہیں
قیمتی شے تھی ترا ہجر اٹھائے رکھا
ورنہ سیلاب میں سامان کہاں دیکھتے ہیں
مجھ کو افلاک سے ہجرت کی صدا آتی ہے،
آدمی عشق میں زندان کہاں دیکھتے ہیں
عامرؔ اس تخت میں تابوت نظر آتا ہے
دیکھتے ہم ہیں یہ دربان کہاں دیکھتے ہیں