جھولا
آیا ساون کا مہینہ نظر آیا جھولا
دل کو بھایا مری آنکھوں میں سمایا جھولا
سال بھر رہ کے بہشتوں کی فضا میں مہماں
ابر کی گود میں بیٹھا ہوا آیا جھولا
چولی دامن کا سا ہے ساتھ گھٹا کا اس کا
اس طرف آئی گھٹا اس طرف آیا جھولا
رت ہے جھولے کی نہ کیوں آج خدائی جھولے
ننھی کلیوں کو ہواؤں نے جھلایا جھولا
پینگ بڑھنے لگی آنچل کو گھٹا کے چھونے
باغ میں سکھیوں نے اس طرح جھلایا جھولا
جھومتی آتی ہیں مستانہ گھٹائیں کیسی
ڈھونڈ کر ہے انہیں کس دیس سے لایا جھولا
گیت سن سن کے گھٹائیں بھی بہک اٹھی ہیں
مل کے سکھیوں نے کچھ اس دھوم سے گایا جھولا
پھول ہلتے ہیں ادھر شاخ لچکتی ہے ادھر
یا بہاروں کو ہے قدرت نے جھلایا جھولا
دور پردیس میں ہم کس کو جھلائیں اخترؔ
حسرت و یاس کا پیغام ہے لایا جھولا