جھیل میں اس کا پیکر دیکھا جیسے شعلہ پانی میں
جھیل میں اس کا پیکر دیکھا جیسے شعلہ پانی میں
زلف کی لہریں پیچاں جیسے ناگ ہو لپکا پانی میں
چاندنی شب میں اس کے پیچھے جب میں اترا پانی میں
چاندی اور سیماب لگا تھا پگھلا پگھلا پانی میں
کتنے رنگ کی مچھلیاں آئیں للچاتی اور بل کھاتی
قطرہ قطرہ میری رگوں سے خون جو ٹپکا پانی میں
روشن روشن رنگ نرالے کیسے نادر کتنے حباب
قلزم ہستی رقص میں تھا یا ایک تماشا پانی میں
ایک قلندر ڈھونڈ رہا تھا چاند ستاروں میں جا کر
اس کا خدا تو پوشیدہ تھا عنقا جیسا پانی میں
مجھ کو یہ محسوس ہوا تھا اپنے عہد کا خضر ہوں میں
چپکے چپکے جب بھی میں نے خضر کو ڈھونڈا پانی میں
آلائش داغوں سے بھرا یہ تیرا بدن اک روز ظفرؔ
رحمت کی گھٹا جب برسی تھی تو صاف ہوا تھا پانی میں