جھیل آنکھیں تھیں گلابوں سی جبیں رکھتا تھا
جھیل آنکھیں تھیں گلابوں سی جبیں رکھتا تھا
شام زلفوں میں چھپا کر وہ کہیں رکھتا تھا
دھوپ چھاؤں سا وہ اک شخص مرے شہر میں تھا
دل میں ہاں اور وہ ہونٹوں پہ نہیں رکھتا تھا
اس کے ہونٹوں پہ مہکتے تھے وفاؤں کے کنول
اپنی آنکھوں میں جو اشکوں کے نگیں رکھتا تھا
اس کی مٹھی میں نہیں پیار کا اک جگنو بھی
جو محبت کے ستاروں پہ یقیں رکھتا تھا
آپ اپنے میں بظاہر تو بہت خوش تھا صفیؔ
دل میں دکھتی سی خراشیں بھی کہیں رکھتا تھا