جب پتّھروں کے شہر میں

جب پتّھروں کے شہر میں ہم نے اذان دی

اُس روز مورتوں کو خُدا نے زبان دی

 

پھر کیا بچے گا تیری مسیحائی کا بھرَم

جب تیرے در پہ مَیں نے کِسی روز جان دی

 

مُجھ کو مِلے وہ تیر، شِکَستہ تھے جِن کے پھل

پھر اِس پہ مُستَزاد کہ ٹوٹی کمان دی

 

مِشعَل بکَف مَیں سلطَنَتِ شب میں کیا گیا!!!

میری دہائی رات نے سات آسمان دی

 

لے آج میرے خِرقۂ صد چاک کا خراج

جا اے امیرِ شہر کہ جاں تجھ کو دان دی

 

مُجھ کو عطا ہوئے تھے نِشاں شرق و غرب کے

پھر اُس کے بعد ایک لحد بے نشان دی

 

تجھ کو طِلَسمِ ہوش رُبا سا مِلا تھا رُوپ

مُجھ کو بھی اُس نے ایک الَگ داستان دی

 

 مَیں تیرا نام لے کے چلا دار کی طرف

یوں مجھ کو تُو نے دولتِ ہر دو جہان دی

 

مَیں دیکھتا رہا تھا بہت دیر اک غزَل

پھر دِل نے مُجھ کو ایک غزَل ترجمان دی

 

حمّاد ، شہرِ ظلم کی ہر رِیت ہے عجَب

جو فصل جل چکی تھی، اُسی کی لگان دی

متعلقہ عنوانات