جذبہ غیرت کا خمیدہ نہیں ہونے دیتا

جذبہ غیرت کا خمیدہ نہیں ہونے دیتا
بوجھ اتنا ہے کہ سیدھا نہیں ہونے دیتا


شرط اتنی ہے گنہ گار پشیماں ہو جائے
وہ خطا پوش ہے رسوا نہیں ہونے دیتا


کھول دیتا ہے پھر امید کی کھڑکی کوئی
مجھ کو محروم تمنا نہیں ہونے دیتا


بزدلی کچھ بھی انوکھا نہیں کرنے دیتی
خوف ناکامی کرشمہ نہیں ہونے دیتا


سانپ نے ایسا جمایا ہے شجر پر قبضہ
پنچھیوں کا بھی بسیرا نہیں ہونے دیتا


ذہن و دل دونوں میں رکھتا ہوں بنا کر واثقؔ
گھر کے اندر کوئی جھگڑا نہیں ہونے دیتا