جشن آزادی

مینہ برستا ہے تو دھرتی کی نظر جھومتی ہے
پھول کھلتے ہیں تو گلشن پہ نکھار آتا ہے
لیکن اے جشن بہاراں کے نئے منتظمو
خود فریبی سے کہیں دل کو قرار آتا ہے


تم اگر جشن بہاراں بھی کہو گے اس کو
موت کے گھاٹ یہ دھوکہ بھی اتر جائے گا
باد صرصر کو اگر تم نے کہا موج نسیم
اس سے موسم میں کوئی فرق نہیں آئے گا


یہ گلستاں یہ گلستاں میں سسکتے غنچے
اپنے اعمال کے پردے میں انہیں ڈھانپ تو لو
اقتدار آج بھی سرگرم سفر ہے لیکن
بے نواؤں کے ارادوں کو ذرا بھانپ تو لو


آج انسان کی عظمت نے کیا ہے اعلان
خود فریبی سے کوئی جی کو نہ بہلائے گا
جب تک آرائش گل زار نہیں ہو جاتی
کسی کونپل کسی غنچے کو نہ چین آئے گا


لیکن اے جشن بہاراں کے نئے منتظمو
یہ تماشا ہمیں بے کار نظر آتا ہے
مینہ برستا ہے نہ دھرتی کی نظر جھومتی ہے
پھول کھلتے ہیں نہ گلشن پہ نکھار آتا ہے