جسد نے جان سے پوچھا کہ قلب بے ریا کیا ہے
جسد نے جان سے پوچھا کہ قلب بے ریا کیا ہے
خطاب آیا کہ آئینہ میں جوہر کے سوا کیا ہے
عیاں آئینہ میں ہے صورت معنی صفا کیا ہے
نہاں تسکین میں ہے اضطراب دل ریا کیا ہے
مٹانا آپ کو نابود ہو جانا فنا کیا ہے
سمانا آپ میں اور خود بہ خود ہونا بقا کیا ہے
دو عالم جلوہ گاہ حسن میں عین بصیرت میں
یہ عکس شخص ہے آئینہ میں صورت نما کیا ہے
وہ یکتا ذات ہے عین سرور علم و حق اے دل
نہاں کثرت میں وحدت ہو گئی ہے ماسوا کیا ہے
قدم ہے ذات واحد حال ہے ماضی و مستقبل
ازل سے تا ابد کی ابتدا کیا انتہا کیا ہے
مٹا کر دل سے پندار خودی انصاف سے دیکھو
کہ بے ذوق تمنا ہستی بیم و رجا کیا ہے
نہ تھے آپے میں موسی ورنہ ان کا حوصلہ کیا تھا
جو بول اٹھتے کہ آ پردہ سے باہر دیکھتا کیا ہے
تجلی بن گئی ساحرؔ نقاب روئے جان جاں
کہ دیدن حکم نادیدن ہے یا رب ماجرا کیا ہے