پرامن ترین ملک جاپان میں سابق وزیراعظم شنزوایبی کیسے قتل ہوگئے؟؟
جاپان کے سب سے لمبے عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے شنزو ایبی Shinzo Abeجمعے کو خطاب کر رہے تھے کہ ایک اکتالیس سالہ شخص نے عقب سے ان کی گردن میں گولیاں اتار دیں۔ انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوری ہسپتال پہنچایا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے۔ شنزو ایبی جاپان کے مغربی شہر نارا میں تھے جہاں وہ اتوار کو ہونے والے انتخابات کی مہم کر رہے تھے۔ یہ خطاب ان کی اسی مہم کا حصہ تھا۔
پر امن ترین ملک سمجھے جانے والے جاپان میں ہونے والایہ واقعہ دنیا بھر کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ جاپان وہ ملک ہے جہاں بندوق یا پستول کے حصول کے قواعد و ضوابط بہت ہی سخت ہیں۔ کوئی بھی شخص جو پستول رکھنے کا خواہش مند ہو، اسے خاصے طویل اور تھکا دینے والے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بندوق کے خواہش مند فرد کو بندوق کے ذمہ دارانہ استعمال کی کلاسز لینا ہوتی ہیں، تحریری امتحان پاس کرنا ہوتا ہے، نشانے کا ٹیسٹ پچانوے فیصد کی ایکوریسی سے پاس کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا نفسیاتی اور ذہنی معائنہ کیا جاتا ہے اور اچھی طرح اس کا مجرمانہ ریکارڈ دیکھا جاتا ہے۔ اسی لیے جاپان میں بندوق یا پستول کے ذریعے ہلاکتوں کی تعداد باقی دنیا کی نسبت بہت کم ہے۔ سی این این کے مطابق 2018 میں جاپان میں پورے سال میں صرف نو ہلاکتیں بندوق کے باعث رپورٹ ہوئیں ۔
اسی لیے شاید شنزو ایبی کا قاتل کوئی بندوق خرید نہیں پایا تھا۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق قتل میں استعمال ہونے والی بندوق ہاتھ سے تیار کردہ تھی۔ قاتل نے اسے کہیں سے خریدا نہیں تھا۔ جاپانی پولیس کے مطابق قاتل کے فلیٹ سے چند اور بھی ہاتھ سے تیار کی گئی بندوقیں ملی ہیں۔ تاہم قتل کے محرکات کیا تھے اس پر پوچھ گچھ جاری ہے اور میڈیا میں اب تک رپورٹ نہیں ہو سکے۔
شنزو ایبی کا وزارت عظمیٰ کا دور کیسا تھا:
ایبی اپنے ملک کے سب سے لمبے عرصے تک وزیر اعظم رہے اور اگست 2020 میں اپنی صحت کے باعث مستعفی ہو گئے ۔ وہ 2006 میں پہلی بار جاپان کے کم عمر ترین وزیراعظم بنے تھے۔ لیکن کچھ حالات کے باعث انہیں ایک سال بعد ہی وزارت عظمیٰ کو چھوڑنا پڑا تھا۔ دوبارہ وہ 2012 میں وزیر اعظم بنے اور اور 2020 میں استعفیٰ دینے تک وزیر اعظم رہے ۔ وہ جاپان کی ایک کنزرویٹو پارٹی کے رہنما تھے اور ایک قومیت پرست شخص سمجھے جاتے تھے۔ عالمی سطح پر انہوں نے کواڈ اتحاد کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا، بحرالکاہل میں چینی اثر رسوخ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ وہ تائیوان کو چین کا حصہ نہیں سمجھتے تھے جس کے باعث چین ان سے نالاں ہی رہتا تھا۔ اندرونی محاذ پر انہوں نے جاپان کے پر امن آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، جس کے تحت آج بھی جاپان آئینی طور پر اپنی فوج کھڑی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے دو دہائی سے جاری جاپانی معیشت میں جمود کو توڑنے کے لیے بھی بہت جارحانہ اقدامات کیے تھے۔
شنزو ایبی اور لیاقت علی خان کے درمیان کیا چیز مشترک ہے؟
یہ سولہ اکتوبر 1951 کا دن تھا، جب لیاقت علی خان راول پنڈی کے کمپنی باغ میں سیاسی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ اسی خطاب کے دوران اکبر نامی ایک شخص نے گولی چلائی اور لیاقت علی خان کی جان لے لی۔ آج سات دہائیوں کے بعد جاپان کے سابق وزیر اعظم بھی ایک سیاسی جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ ان کو ایک شخص نے گولی مار دی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت لیاقت علی خان کے قاتل کو گرفتار کرنے کی بجائے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا لیکن یہاں قاتل کو گولی نہیں ماری گئی۔ دیکھا جائے تو یہ بڑا فرق ہے۔ جاپانی قوم ممکنہ طور پر اپنے وزیر اعظم کے قتل کے محرکات جان لے گی لیکن ہمارے ہاں تاریخ میں صرف چہ میگوئیاں، اندازے اور الزامات ہی محفوظ رہیں گے۔