جنگل جنگل شوق سے گھومو دشت کی سیر مدام کرو
جنگل جنگل شوق سے گھومو دشت کی سیر مدام کرو
انشاؔ جی ہم پاس بھی لیکن رات کی رات قیام کرو
اشکوں سے اپنے دل کو حکایت دامن پر ارقام کرو
عشق میں جب یہی کام ہے یار ولے کے خدا کا نام کرو
کب سے کھڑے ہیں بر میں خراج عشق کے لیے سر راہ گزار
ایک نظر سے سادہ رخو ہم سادہ دلوں کو غلام کرو
دل کی متاع تو لوٹ رہے ہو حسن کی دی ہے زکوٰۃ کبھی
روز حساب قریب ہے لوگو کچھ تو ثواب کا کام کرو
میرؔ سے بیعت کی ہے تو انشاؔ میر کی بیعت بھی ہے ضرور
شام کو رو رو صبح کرو اب صبح کو رو رو شام کرو