جامع ترمذی کی حدیث اور تفصیل

جامع ترمذی

کتاب: گواہیوں کا بیان

باب: دنیا کی مثال چار شخصوں کی سی ہے

حدیث نمبر: 2325

ترجمہ:

ابوکبشہ انماری ؓ کا بیان ہے کہ  انہوں نے رسول اللہ  ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا:  میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کر رہا ہوں جسے تمہیں  یاد رکھنا چاہیے ،  کسی انسان کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی  (یہ پہلی بات ہے) ،

اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتا ہے  (یہ دوسری بات ہے) ،

اور اگر کوئی شخص  کسی انسان سے مانگنے  کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے(ہاتھ پھیلاتا ہے ) تو اللہ اس کے لیے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔  (یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا)   (یہ تیسری بات ہے) 

اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو: یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں  اپنے رب سے ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے  ١ور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے   ۔  ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔

 اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا  لیکن  پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا،

اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسے علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے،

 اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا  (یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا)  تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہوگا ۔  

 امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔  

 تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ المؤلف، وأخرج ابن ماجہ نحوہ في الزہد ٢٦ (٤٢٢٨) (تحفة الأشراف: ١٢١٤٥) (صحیح  )  

 وضاحت:  صلح رحمی یعنی اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرتا ہے اور اعزہ و اقرباء کا خاص خیال رکھتا ہے۔

   مال میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا مطلب ہے کہ  زکوۃ و صدقات اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ۔ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے جو کچھ اس پر واجب ہوتا ہے خرچ کرتا ہے اور اس میں سے عام صدقات و خیرات بھی کرتا ہے۔  

 قال الشيخ الألباني:  صحيح، ابن ماجة (4228)  

یعنی الشیخ علامہ ناصر الدین البانی کے بقول یہ صحیح حدیث   ہے۔