جیسے اسے قبول تھا کرنا پڑا مجھے
جیسے اسے قبول تھا کرنا پڑا مجھے
ہر زاویے سے خود کو بدلنا پڑا مجھے
یادوں کی ریل اور کہیں جا رہی تھی پھر
زنجیر کھینچ کر ہی اترنا پڑا مجھے
ہر حادثے کے بعد کوئی حادثہ ہوا
ہر حادثے کے بعد سنبھلنا پڑا مجھے
چاہا تھا اس نے میری اداسی حسین ہو
حزن و ملال میں بھی نکھرنا پڑا مجھے
پہلے مکر گئی میں کسی اور بات سے
پھر اپنی بات سے بھی مکرنا پڑا مجھے