جہاں بچھڑے تھے اگر لوگ وہاں مل جاتے

جہاں بچھڑے تھے اگر لوگ وہاں مل جاتے
لوٹنے والوں کو پھر گھر کے نشاں مل جاتے


دل نوردوں کا رہا مرحلوں سے یہ شکوہ
جہاں امید تھی اے کاش وہاں مل جاتے


مل گیا تم کو تمہارا جہاں ہم کو اپنا
تم ہمیں ملتے تو پھر دونوں جہاں مل جاتے


ہم نے پیری میں پھر اس دل کو کھنگالا ہی نہیں
شرم آتی اگر احساس جواں مل جاتے


ہم سے ملنے میں تمہیں ایسی بھی مشکل کیا تھی
ہم تو شاعر ہیں تمہیں زیر زباں مل جاتے