جہاں بھی ظلم و تکبر مثال ہوتا ہے
جہاں بھی ظلم و تکبر مثال ہوتا ہے
عروج آدم خاکی زوال ہوتا ہے
کسی کا دل جو دکھائے کسی کو تہمت دے
بدیر جلد برا اس کا حال ہوتا ہے
ہو گھاؤ خنجر و شمشیر کا تو بھر جائے
زباں کا زخم کہیں اندمال ہوتا ہے
ترے مزاج کے موسم سے کیا شکایت ہو
ذرا سی دیر میں اکثر بحال ہوتا ہے
ہر ایک یاد لپٹتی ہے آ کے پیروں سے
تمہارے شہر میں اپنا یہ حال ہوتا ہے
وہ ذکر کرتے ہیں اکثر گئے مراتب کا
وہ آج کیا ہیں مگر یہ سوال ہوتا ہے
کھٹک رہی ہے غزلؔ آج ان کو خاموشی
جو سچ کہیں گے تو سننا محال ہوتا ہے