جدید تر

تجھ سے اک عمر کا پیماں تھا مگر میرا نصیب
انقلابات کا محکوم ہوا جاتا ہے
وہ تصور جو کئی بار نکھارا میں نے
اتنا موہوم ہے معدوم ہوا جاتا ہے
تیری آنکھوں میں جگائے تھے ستارے میں نے
اور چھلکائے تھے گالوں میں حیاؤں کے ایاغ
کوئی احساس نہ تھا وقت کی گردش کا مجھے
ورنہ کیا رات سے ملتا نہیں سورج کا سراغ
اس چکا چوند میں اب تجھ کو پکاروں کیسے
سیل انوار میں تاروں کا گزر کیا ہوگا
تہہ دامن جو چراغوں کو چھپائے رکھوں
سوچتا ہوں کہ پھر انجام سفر کیا ہوگا
مجھ کو آواز نہ دے وقت کے صحراؤں میں
میں بہت دور بہت دور نکل آیا ہوں
میں افق پر بھی نہیں ہوں میں فلک پر بھی نہیں
میں ترے ماضیٔ مرحوم کا اک سایہ ہوں