جدید ادب کا تنہا آدمی

نئے معاشرے کے ویرانے میں


یہ خط ایک رسالے ے مدیر کے دیے ہوئے عنوان پر مضمون لکھنے کی فرمائش کے جواب میں لکھا گیا تھا جو وہاں شائع نہ سکا۔ احتشام حسین


محترمی۔ وقت کی کمی ہے اور آپ کا اصرار، اپنے خیالات مختصراً پیش کرتا ہوں۔


آپ نے جو عنوان دیا ہے اس کا تقریباً ہر اہم ٹکڑا (جدید ادب، تنہا آدمی، نئے معاشرے کا ویرانہ) بہت بحث طلب ہے۔ جب تک ان الفاظ کے واقعی حدود کا تعین نہ ہو یا کم سے کم ان کے مفہوم پر ایک حد تک اتفاق رائے نہ ہو جائے، غلط فہمیاں پیدا ہوں گی اور ہر اظہار خیال نئی بحثوں کا دروازہ کھولےگا۔ جو کچھ اس قسم کی ہوں گی، فلاں نے جدید ادب میں جدید کا مطلب ہی نہیں سمجھا، فلاں نے تنہا کا بہت محدود یا لغوی مفہوم لیا ہے، علامتی کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ فلاں نے معاشرے کو خواہ مخواہ ملکوں میں محدود کر دیا۔ فلاں نے ویرانے کے خوبصورت لفظ کے ساتھ انصاف نہیں کیا شاید انہوں نے ویسٹ لینڈ کا نام ہی نہیں سنا ہے۔ اس لیے شروع ہی میں مختلف پہلوؤں پر غور کر لینا چاہیے۔


جدید ادب سے آپ کون سا ادب مراد لیتے ہیں؟ ہندوستان میں اردو کا جدید ادب یا عالمی ادب کا وہ حصہ جسے جدید کہہ سکتے ہیں، کہیں کا جدید بہت پہلے شروع ہو چکا اور کسی کا اب آغاز ہو رہا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لکھنے والے ۱۹۵۰ء کے پہلے کے ادب کو جدید کہنا پسند نہیں کرتے۔ بہت سے بیسویں صدی کو جدید کہتے ہیں، کچھ پہلی جنگ عظیم کے بعد والے ادب کو جدید کہنے پر مصر ہیں، کچھ تقسیم ہند ہی کو جدید کے لیے وقت کا خط تقسیم قرار دیتے ہیں، کچھ ایٹمی عہد کو، بعض خلائی سفر والے زمانے کو، بعض حضرات گذشتہ دس بارہ سال کے اندر لکھی ہوئی تحریروں کو جدید مانتے ہیں۔ کچھ لوگ سو سال پہلے کے خیالات کو اپنے موافق پاکر جدید میں شمار کر لیتے ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جو جدید ادب کی تاریخ وہی مانتے ہیں جس سے انھوں نے لکھنا شروع کیا ہے۔


ان میں سے بعض معیار عالمی ہیں، بعض ہندوستانی۔ میں اسے سمجھتا ہوں کہ ادب کی دنیا میں لین دین جلد جلد ہوتا ہے، لیکن اگر ادیب اور شاعر کے واقعی تجربے کو بھی ضروری قرار دیا جائے تو یقیناً ہمارے ہندوستانی ادیب بعض باتوں میں پچھڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایک بات اور ہے، کچھ لوگ جدید کو وقت اور زمانے کے پیمانے سے ناپتے ہیں، کچھ مزاج اور احساس کی کیفیاتی کسوٹی پر کستے ہیں۔ اسے آپ بھی تسلیم کریں گے کہ احساس کی کسوٹی تاثراتی اور داخلی ہے اور ہر فرد کو اپنی انفرادیت پر اتنا اصرار ہو سکتا ہے کہ ہم اسے کسی قسم کے جمالیاتی، عقلی، اخلاقی اور فکری ماحول کی حدوں میں لا ہی نہ سکیں۔ ایسی صورت میں جدید کا مفہوم ہی بے معنیٰ ہو جائےگا۔ اگر رہےگا بھی تو اسے جدید کیا، زمان و مکان کے ہر اصول سے ماورا ماننا پڑےگا۔ جدید کو محض زمانے سے وابستہ کرنے میں یہ دھوکہ چھپا ہوا ہے کہ ہر شخص جو کچھ سال پہلے پیدا ہوا ہے، اور جس نے بیسویں صدی کی چند علمی اور سیاسی اصطلاحیں اور رائج الوقت فقرے استعمال کرنا سیکھ لیا ہے، وہ جدید ہونے کا مدعی بن سکتا ہے۔


آپ یہ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ گذشتہ چند برسوں میں کچھ ادیبوں اور خاص کر شاعروں نے جدید ادب کو بہت ہی محدود معنی میں استعمال کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ادب کی کوئی ایسی قسم یا صنف ہے جسے نہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور نہ اسے سمجھنا چاہیے، اس کے سمجھنے میں آج تک ادب کے پرکھنے کے جتنے طریقے استعمال کیے گئے ہیں وہ کام نہیں اؔ سکتے۔ اسی وجہ سے کوئی نقاد اس کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتا۔ اور شاید کر بھی نہیں سکتا۔ اگر دو تین برس کی مختلف تحریریں یک جا کر دی جائیں تو نئی شاعری کی نہ جانے کتنی اور بعض اوقات متضاد تعبیریں ملیں گی۔ ایسے میں جدید ادب کہہ کر کیا مراد لینا چاہیے، یہ غور طلب ہے۔ اگر آج کے تمام انسان جدید ہیں تو پھر اختلاف کیوں ہیں اور اگر سب جدید نہیں ہیں تو غالباً ہمیں شعور کی مختلف سطحوں کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی اور جدید اور غیر جدید کے درمیان خط امتیاز کھینچنا ہوگا۔ یہی طریقہ ہمیشہ رہا ہے اور شاید رہےگا۔


ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ جدید ادب میں بہت سے ادبی رنگ شامل ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ادیب اور شاعر اپنے شعور کے مطابق اپنی انفرادیت سے کام لیتے اور اپنے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں، نہ تو موضوعات آسمان سے اترتے ہیں اور نہ اسلوب اور اس کا نیاپن، ہر ادیب اکثر جان بوجھ کر اور کبھی نیم شعوری طور پر انھیں اختیار کرتا ہے۔ یہی اختیار ہے جسے ہم ادیب کی آزادی کہہ سکتے ہیں اور اس کے آزادی کے استعمال سے اس کے انفرادی اور سماجی شعور کا پتا چلتا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف ہی میں نہیں، آج اگست ۱۹۴۸ء میں بھی مختلف الخیال شاعر اور ادیب ایک ہی سماج میں یکجا ہو سکتے ہیں۔ زندگی کے متعلق ان کے مطمح نظر مختلف ہو سکتے ہیں، ان کے جمالیاتی احساسات مختلف ہو سکتے ہیں، ان کے نظریہ فن مختلف ہو سکتے ہیں اس لیے جدید ادب کے دائرے کو خاصا وسیع رکھنا ہوگا۔ جب انفرادی طور پر ادیبوں اور شاعروں کے نظریۂ فکر وفن کے جانچنے کا وقت آئےگا تو ان کی گروہ بندی ہو سکے گی، ان کی انفرادیت اور جدت کو پرکھا جا سکےگا اور ان کے تخلیقات کے مواد اور اسلوب کے نئے پن کے متعلق رائے قائم کرنا ممکن ہوگا۔ اس وقت محض جدید کے کہنے سے کام نہیں چلےگا۔ اس کی کئی سطحیں ہوں گی۔


’’تنہا آدمی‘‘ بھی کوئی واضح تصور نہیں پیش کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے وجود محض کے اعتبار سے تو ضرور تنہا ہے لیکن کسی گروہ، سماج، خاندان، مذہبی عقیدے، طبقے، علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تنہا نہیں بھی ہے۔ اگر ایسا ہے تو برے بھلے وہ انہیں علایق کی مدد سے پہچانا جائےگا اور مخصوص مواقع پر مخصوص روابط کے دائرے میں گنا جائےگا۔ اپنے احساس اور شعور کے اعتبار سے ہر شخص کسی قدر منفرد اور تنہا ہو سکتا ہے۔ کچھ اشخاص ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن پر تنہائی کا احساس ایک بیماری کے روپ میں مسلط ہو جائے۔ کچھ اپنے مزاج کے اعتبار سے تنہائی پسند ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو کبھی خلوت پسند کرتے ہیں کبھی جلوت۔ اپنے بعض کاموں کے لیے تنہائی چاہتے ہیں بعض کے لیے مجلس۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی نفسیاتی کیفیت کے تحت ایک شخص ہجوم سے گھبرا کر تنہائی میں سکون حاصل کرتا ہے اور پھر تنہائی سے گھبرا کر محفلوں اور بازاروں میں نکل جاتا ہے۔ تنہائی عام انسان کی مستقل کیفیت نہیں ہے۔ ایسے لوگ جو عوام سے خود کو الگ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے کو تنہا پاتے ہیں اور نفسیاتی طور پر اسے اپنی برتری قرار دیتے ہیں۔


تنہائی کا احساس، جیسا کہ کہہ چکا ہوں کوئی نئی چیز نہیں۔ اس کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں اور یہ ساری صورتیں خارجی حالات کی تابع ہوں گی۔ بعض انفرادیت پسند اور وجودی فلسفیوں نے اس کو انسان کی تقدیر قرار دیا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے بعض مفکروں نے اس خیال کو عام کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ ان میں سے اکثر وہی عیسائی مفکر ہیں جو انسان کے اولین گناہ کے احساس کو ہر انسان پر مستولی کرنا چاہتے ہیں۔ یہی ان کے انتشار طبع، فکر مندی، احساس پشیمانی، تنہائی اور قنوطیت کا خالق ہے۔ اس کو ایک طرح کا فلسفیانہ لباس پہنا کر محض ماہرین تحلیل نفسی نے عام سماجی زبوں حالی، صنعتی ترقی، شہروں کی ہماہمی، سائنسی ارتقا اور رحاکمانہ اقتدار کے سامنے فرد کی بے بسی اور بےچارگی سے وابستہ کر دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہی فرد کی قسمت ہے لیکن تاریخ اور روز مرہ کے واقعات اس کی نفی کرتے ہیں۔


یوں بھی انسان کا تنہا، بے بس، بے حقیقت، بے یارو مددگار ہونا ایک بات ہے اور احساس تنہائی دوسری بات۔ جب سماجی حالات فرد کو بےبس اور مجبور کر دیتے ہیں، اس وقت اس کے لیے دو راستے رہ جاتے ہیں گھٹنا، کڑھنا، مایوسی کا شکار ہو کر خودکشی یا موت کا انتظار۔ دوسرا راستہ اس حالت کو بدلنے کے لیے جدوجہد کا ہے۔ پہلے طرز عمل کی حمایت رجعت پسند مفکروں کی طرف سے ہوتی ہے، جو طرح طرح سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ جدوجہد کے بعد بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اسی فلسفے کی مدد سے تقدیر پرستی، انسانی قوت کی بے حقیقتی اور عمل سے گریز کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسرے قسم کے فلسفیوں نے فرد کی بے بسی، تنہائی، کمزوری اور پستی کو سماجی حالات کا نتیجہ بتاکر اپنی تقدیر کو بدلنے کی راہیں بھی بتائی ہیں اور تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ہر انتشار اور بحران کی صورت میں ہمیشہ یہی دوسرا راستہ عام انسانوں کا راستہ رہا ہے۔ اس لیے فرد کی تنہائی کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے ان حقائق کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔


اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ کچھ افراد تنہا ہیں اور ان کی تنہائی ادب کا موضوع بن سکتی ہے تو پھر وہ انسان بھی شعرو ادب کا موضوع کیوں نہ بنیں اور وہ لوگ بھی شعر کیوں نہ لکھیں جو تنہائی کے شکار یا شاکی نہیں ہیں۔ دنیا کے ہر قدیم و جدید اعلا ادب میں تنہائی کے موضوع پر کچھ اچھی چیزیں مل جائیں گی، لیکن ان کے مقابلے میں انسان کی سماجی حیثیت، فرد کی عملیت پسندی، تقدیر سازی اور جہد حیات کے مسائل سے بھی ادب بھرا پڑا ہے اور وہ کمتر درجے کا نہیں ہے جس نے تاریخ کا تھوڑا بہت بھی مطالعہ کیا ہے وہ بڑی آسانی سے سمجھ لےگا کہ چند خاص ملکوں کے فلسفی اور مفکر، شاعر اور ادیب انسان کی تنہائی کے مبلغ کیوں ہیں۔


تنہائی کا موضوع اگر فرد کے عارضی احساس سے متعلق ہو تو شاید ہی کوئی شاعر ایسا ملے جس کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں اس کی ترجمانی نہ پائی جاتی ہو لیکن یہ ایک مختصر دور ہوتا ہے جس سے شاعر باہر بھی نکل آتا ہے اور دنیا کی نیزنگیوں کو سمجھنے یا ان سے لطف حاصل کرنے کا تجربہ کرتا ہے۔ علم اور مشاہدے کی مدد سے دوسروں کے تجربے بھی اس کے کام آتے ہیں۔ اس طرح تنہائی کا طلسم بار بار ٹوٹتا ہے اور زندگی کا بڑا حصہ سماجی بنا رہتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں اپنا ذکر معیوب نہ ہو تو چند لفظوں میں اپنے خیال کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔


میں طبعاً کم آمیز اور تنہائی پسند ہوں، بچپن میں یہ پہلو اتنا نمایاں تھا کہ بزرگ اور دوست اس پر ٹوکا کرتے اور طنزاً فلسفی کہتے تھے۔ کبھی کبھی تو بھری محفل میں تنہائی کا احساس اتنا شدید ہوتا تھا کہ شرمندگی کا منھ دیکھنا پڑتا تھا۔ آہستہ آہستہ زندگی کے جھمیلوں، مطالعے، مشاہدے اور ہندوستان کی تحریک آزادی سے ذہنی دلچسپی نے اسے کم کیا۔ ۱۹۳۶ء کی بات ہے، الہ آباد یونیورسٹی میں ایم۔ اے کا طالب علم تھا۔ ان دنوں یہاں ہر سال سودیشی نمائش ہوا کرتی تھی، جو ہفتوں چلتی اور مختلف حیثیتوں سے دوستوں کی گفتگو کا موضوع بنی رہتی۔ اس زمانے میں وہاں جانا بہت بڑی تفریح سمجھا جاتا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی جاتا تھا۔ ایک رات وہاں پہنچا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں بالکل اجنبی ہوں اور تنہا، میر اکوئی نہیں۔ نہ جانے کتنے چکّر لگا ڈالے، یہاں تک کہ تھک گیا۔ اتفاق سے نہ کوئی دوست ملا نہ ساتھی، نہ یہ محسوس ہوا کہ ایک تفریح گاہ میں ہوں۔ کبھی کبھی شعر کہہ لیتا تھا، اس رات ایک نظم ہوئی جس کا عنوان تھا ’’احساس تنہائی۔‘‘ شعبۂ اردو کے رسالہ نیساں میں یہ اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔


۴۱۔ ۱۹۴۰ء میں کسی نے چند سوالات پوچھے، اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے جواب میں میں لکھا تھا کہ طبعاً تنہائی پسند اور غم کوش ہوں۔ ۵۳۔ ۵۲ء میں امریکہ اور یورپ گیا۔ سفرنامہ ساحل اور سمندر شائع ہو چکا ہے۔ اس میں اس کیفیت کا اظہار بار بار ہے۔ کہیں خاتمے میں یہ بھی ہے کہ میں تنہائی کے احساس سے لڑتا رہتا ہوں، اور اسے انسان کی تقدیر نہیں سمجھتا۔ ابھی چند ہفتے ہوئے کچھ پڑھ رہا تھا۔ موضوع یہ تھا کہ ہر راستہ تھوڑی دور چل کر بند ہو جاتا ہے، منزل ملے تو کیسے۔ کسی کسی وقت ایسے خیالات بھی مجھے گھیرتے ہیں۔ اس دن ایک غزل کہی تھی اس میں یہ شعر بھی تھا۔


یہ آج کیا ہے کوئی راستہ نظر میں نہیں
مرا و جود مری جستجو میں تنہا ہے


لیکن میرا عقیدہ ہے کہ انسان کسی معاشرے میں تنہا نہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیفیت طاری ہوتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، یہی زندہ رہنے اور ذاتی یا سماجی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرتے رہنے کا جواز ہے۔ ہمارے بہت سے نوجوان دوست انفرادیت اور تنہائی کو ایک سمجھ رہے ہیں۔ یہ ان کی بڑی بھول ہے۔ تنہائی کا احساس اگر بیماری نہ بن جائے تو اسی طرح عارضی ہے جیسے موت کا خوف۔


اب رہا تیسرا ٹکڑا ’’نئے معاشرے کا ویرانہ۔‘‘ یہ بھی گنجلک ہے۔ کون سا نیا معاشرہ؟ سماجی اور معاشرتی ارتقا کے لحاظ سے اس وقت دنیا میں کئی طرح کے سماج ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایسی صورت میں نئے معاشرے سے کون سا معاشرہ مراد لیا جائے۔ امریکہ کا، برطانیہ کا، روس کا، فرانس کا، چین کا، فرانس کا، اسرائیل کا، یونان کا، حجاز کا، الجیریا کا، ہندوستان کا، انڈونیشیا کا (دو سال قبل کا یا آج کا۔) یہ سب ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔ کیا یہ سب ویرانے ہیں اور کیا وہاں کے سارے بسنے والوں کے لیے؟


مثال کے لیے ہندوستان کو لیجیے۔ یہ معاشرہ کن کن گروہوں، طبقوں یا لوگوں کے لیے ویرانہ ہے اور کن کے لیے جنت؟ کچھ لوگ اس معاشرے کو اچھا سمجھتے ہیں اور خوش ہیں، کچھ اسے بدلنا چاہتے ہیں، کچھ لوگوں کے ذہن میں ایک مثالی اور تخیلی معاشرے کا تصور یہی ہو سکتا ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو ناآسودہ ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ تبدیلی کس طرح عمل میں آئے اور کس طرح کے معاشرے سے وہ خوش اور مطمئن ہوں گے؟ غرض کہ یہ سوال بہت پیچیدہ ہے کہ کوئی معاشرہ کیوں ویرانہ بن جاتا ہے اور اس کا بدل کیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ذکر عوام کا نہیں شاعروں اور ادیبوں کا ہے، حالانکہ عنوان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نئے ویران معاشرے میں انسان تنہا ہے اور وہی جدید ادب کا موضوع ہے۔


اگر شاعر، ادیب اس معاشرے کو ویرانہ اور اس میں بسنے والوں کو تنہا سمجھتے ہیں تو انھیں اپنی تنہائی میں اس کا علم اور احساس کن ذرائع سے ہوا، اور اگر یہ ایک بدیہی حقیقت ہے تو اس کا اظہار تمام شاعروں اور ادیبوں کو کیوں کرنا چاہیے۔ شاعری میں اس کا اظہار محض اظہار واقعہ ہے یا کسی نئی حقیقت اور نئے تجربے کا انکشاف؟ ظاہر ہے کہ یہ انکشاف شاعر کے ذاتی تجربے اور احساس نے کیا ہوگا۔ اور ایک ہی ادیب یا شاعر نے نہیں، بہت سے جدید ادیبوں نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ معاشرہ بنجر ہے، یہ تہذیب بانجھ ہے، وہ تنہا ہیں اور وہی نہیں سب تنہا ہیں۔ کیا واقعی انفرادی عمل تخلیق کا یہی طریق کار اور یہی راستہ ہے؟ اس طرح تو یہ احساس انفرادی نہیں رہےگا، جماعتی اور سماجی ہو جائےگا، جس سے بہت سے ادیب بچنا چاہتے ہیں تاکہ ان سے وہی بات منسوب نہ کی جائے، جو دوسروں سے بھی کی جا سکتی ہے۔


معاشرے کو ویرانہ سمجھنے یا اس سے نا آسودہ رہنے کی بات نئی نہیں ہے۔ ہر عہد میں ایسا ہوتا رہتا ہے کہ حساس انسان ناآسودگی کا اظہار کریں۔ صرف مفکر اور سیاست داں ہی نہیں ادیب اور شاعر بھی اس حقیقت کو اپنے طور پر محسوس کرتے رہے ہیں۔ نئے مذاہب، نئے فلسفۂ خیال، نئے سیاسی اور سماجی افکار اسی جذبے سے پیدا ہوتے ہیں۔ غلامی کا احساس اور آزادی کی طرف پہلا قدم اور ضرورت کا احساس اس کے پورے کرنے کی پہلی منزل ہے۔ جب لوگ اپنے عہد کے معاشرے میں خامیاں دیکھتے ہیں تو اسے تبدیل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے اس لیے اگر آج کے شاعر اور ادیب اپنے معاشرے کو ویران پاتے ہیں تو اس کا اظہار انہیں ضرور کرنا چاہیے، لیکن محض اظہار ناکافی ہے۔ نفسیاتی نقطہ نظر سے یہ بات صرف نیوروسس کے مریضوں کے لیے درست ہے کہ وہ بعض جذبات کا اظہار کر کے تسکین حاصل کر لیتے ہیں لیکن اس حالت سے نکلنے کی خواہش کا مقابلہ کرتے ہیں۔


صحت مند ذہن اور جسم کمزوری اور بیماری سے نجات حاصل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ معاشرہ کتنا ہی ویران ہو، سارے شاعر، ادیب اور انسان نیوروسس میں مبتلا نہیں ہو سکتے۔ کچھ شاعر اور ادیب اسے نظر انداز کر بڑے بھونڈے طریقے پر یہ خیال دہراتے رہتے ہیں کہ ان سے کیا مطلب۔ دنیا جنت میں جائے یا جہنم میں، وہ فن کار ہیں انھیں اپنے جذبات اور احساسات کے اظہار سے کام ہے۔ یہیں اس موضوع کا بنیادی پہلو ہمارے سامنے آتا ہے اور اسی پر غور کرنے کے لیے، گریز کرنے کے لیے تنہائی، انفرادیت، ذات کے انکشاف کی نئی نئی تاویلیں کی جا رہی ہیں۔


میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس زمانے میں ادیب اپنی ذات کے اظہار کے لیے آزاد نہیں رہا ہے اور کب اسے اپنے معاشرے کے بعض حیثیتوں سے ویران ہونے کا احساس ہوا ہے اور اس کو اپنی تخلیق میں ظاہر نہیں کیا ہے اور کب اسے خوب سے خوب ترکی جستجو نہیں رہی ہے۔ اگر ان باتوں کا جواب یہ ہے کہ اس احساس اور آج کے احساس میں فرق ہے تو میں یہ کہوں گا کہ ایسا ہونا لازمی اور فطری ہے، اس سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ تبدیلی تو زندگی کا بنیادی قانون ہے، اس سے مفر نہیں۔ انہیں وجوہ سے میں نے کہا تھا کہ تینوں ٹکڑے، جدید ادب، تنہا آدمی، اور نئے معاشرے کا ویرانہ اضافی، غیر واضح اور الجھے ہوئے ہیں۔


میں اس مسئلے کو جس طرح دیکھتا ہوں اس کو چند لفظوں میں یوں کہہ سکتا ہوں کی یقیناً ہمارا جدید ہندوستانی معاشرہ نہایت غیرآسودگی بخش ہے اور اس کا احساس نہ صرف ہر ادیب اور شاعر کو ہے بلکہ ہر اس شخص کو ہے جس کے پاس احساس کی دولت ہے۔ اس بدیہی بات کا اظہاریا دہرایا جانا کافی نہیں ہے، اس کا بدل سوچنا اور اسے حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا بھی ضروری ہے، چاہے یہ عمل محض ذہنی ہی کیوں نہ ہو۔ شاعر اور ادیب اپنی تنہائی کے مفروضہ خول سے باہر نکلیں تو انھیں معلوم ہوگا کہ یہ احساس سماجی ہے اور تاریخ کے بہت سے عناصر اس معاشرے کو بدلنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انسان ہی تاریخ کے ہاتھ پیر ہیں اور ہمارے شاعر اور ادیب بھی انھیں میں شامل ہیں۔ ان کے طریق کار ضرور مختلف ہیں اور جو ادبیات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں وہ اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔


جیسا کہ اوپر کی سطروں میں واضح کر چکا ہوں، انسان کی تنہائی کا احساس ادب کا موضوع رہا ہے اور ہمیشہ رہ سکتا ہے لیکن تنہا انسان ایک عقیدے کی حیثیت سے کبھی اہمیت اختیار نہیں کر سکتا۔ فرد ڈرامے، ناول اور افسانے کا موضوع رہا کیا ہے لیکن (چند تخلیقات کے علاوہ) تقریباً ہر جگہ وہ اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے، اپنے ذہنی یا واقعی ماحول پر فتح حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہوا پایا گیا ہے۔ چاہے اس میں اس کی شکست ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔ آج ایک تنہا، بے حیثیت، بے حقیقت، بے عمل، سماج بیزار انسان پر زور دینے والے نادانستہ یا دانستہ ان عناصر کو تقویت پہنچا رہے ہیں جو غیر مطمئن افراد کو جدوجہد سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ اسے محض پروپیگنڈا کہہ دینے سے کام نہیں چل سکتا۔ جو لوگ دانستہ ایسا کر رہے ہیں انھیں چاہیے کہ شعر وادب کے مبہم پردے میں چھپ کر اپنے خیالات کی دھند پھیلانے کے بجائے دلائل کے ساتھ مضامین لکھیں، جدید انسان کے ذہن میں جو الجھنیں اور گتھیاں پڑ گئی ہیں انھیں سمجھیں اور سلجھائیں۔ اس سے ادب اور انسانیت دونوں کا بھلا ہوگا۔ (بہ شرطے کہ اس عقیدے پر ضرب نہ پڑتی ہو کہ ہم کو فائدے نقصان سے کوئی مطلب نہیں۔)


اگر ماضی اور حال میں ہمارے لیے کوئی علم پوشیدہ ہے تو وہ یہ ہے کہ تاریخ ان کا ساتھ دیا کرتی ہے جو تنہائی، بےچارگی اور بے نام اضطراب سے انفرادی اور جماعتی طور پر برسر پیکار رہے ہیں اور انھیں کے ہاتھوں ویران معاشروں میں نخلستان اگے ہیں، جو لوگ تاریخ اور زندہ حقایق کے منکر ہیں یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئےگی لیکن حساس شاعر اور ادیب اس احساس سے خالی نہیں ہیں اور نہ اپنے منصب سے ناواقف ہیں۔


ذاتی تجربہ یا انفرادی جذبہ، جو کائنات کی طرح وسیع ہے، اس کا اظہار اس احساس تنہائی سے کیوں وابستہ کیا جائے جس کا دائرہ محدود ہے۔ کیا یہ انفرادیت نہیں ہے کہ انسان اپنے دکھ کے علاوہ دوسروں کا دکھ درد بھی محسوس کرے۔ تاریخ عالم میں کتنے لوگوں نے اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے قربانیاں دی ہیں اور غیرشخصی مفاد کے لیے شدید ترین جذبات کا اظہار کیا ہے اور انفرادی انداز میں۔ کیا یہ شاعری کا موضوع نہیں ہے اور کیا یہ تنہائی کے احساس سے یا تنہا انسان کے عقیدے سے پیدا ہو سکتا ہے؟ تنہائی پسندی اور اس کی تبلیغ در حقیقت دوسرے انسانوں سے نفرت کی ایک معکوس اور بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اس کا قابل پرستش قرار دیا جانا انسان کی تذلیل ہے۔ یہ ایک خاص گروہ کا سماجی اور شعوری احساس ہے اور بعض حالات میں اپنے اوپر طاری کیا ہوا احساس ہے۔ یہ جذبے کے تعمیری رخ کو موڑنے کی جانی بوجھی کوشش اور اس کی تبلیغ ہے۔


وسکانسن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے فخر یہ انداز میں کہا کہ ہم نے (یہ ہم کون ہیں؟) نوجوانوں کی زندگی میں طرح طرح کی لذتیں مہیا کر کے ان کے جوش کو غیر سیاسی انقلابات کی طرف موڑ دیا ہے۔ یہ انقلابات ہیں داڑھی بڑھانا اور بدھ مت سے دلچسپی۔ کون ہے جو اس کا مطلب سمجھنے میں دشواری محسوس کرےگا۔


مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ طلسم ٹوٹ رہا ہے، سوچنے اور لکھنے، بحث کرنے اور مطلب کے واضح کرنے کے انداز میں فرق آ رہا ہے۔ شعروادب کے گرد جو حصار باندھا جا رہا تھا، اس کے بہت کمزور ہونے کا احساس ہو رہا ہے، نظموں کی یکسانیت اور بےرنگی سے اکتاہٹ پیدا ہو رہی ہے، معنویت اور اہم تجربات کے اظہار کا میلان بڑھ رہا ہے۔ ہٹ دھرمی کے بعد ذہنی سفر کی یہ فطری رفتار ہے۔ اندھیرے اور روشنی کی کشاکش میں محض اندھیرے سے، زندگی اور موت کے تصادم میں صرف موت سے، ویرانی اور آبادی میں صرف ویرانی سے، ہر شخص، ہر شاعر اور ادیب ہمیشہ محبت نہیں کر سکتا۔ دل کا نگر ویران ہو ہو کر بستا رہتا ہے اور بے دلی کے انتہائی پر آشوب ہونے کے باوجود شکست اور نومیدی جاوید پر انسان راضی نہیں ہو سکتا کیونکہ عقدۂ مشکل کو حل کرنے کی خواہش فطری ہے۔ جب ادر اک اس منزل میں داخل ہوگا تو تنہائی کا شعور سماجی بنے گا اور ویران معاشرے سے ساز کرنے کی بہ جائے اسے بدلنے کی خواہش بھی پیدا ہوگی، یہ بات نہ انفرادیت کے منافی ہے نہ شعروادب کے۔