جدیدیت اور مابعد جدیدیت

پچھلے دنوں اردواکادمی دہلی کے زیراہتمام مابعدجدیدیت کے موضوع پر ایک سمینار منعقد ہوا۔ اس قومی سمینار میں بھارت کے کونے کونے سے اردو کے ناقدین، شعراء اور کہانی کاروں نے بھرپورحصہ لیا اور مابعدجدیدیت یعنی Post Modernism کے اوصاف کی نشاندہی کرنے کے علاوہ مابعدجدیدیت کے حوالے سے اردو کی مختلف اصناف ادب میں رونما ہونے والی تبدیلی کا بھی احساس دلایا۔ مابعدجدیدیت کی نشاندہی کے سلسلے میں مختلف حضرات نے جو کچھ کہا، اس میں مندرجہ ذیل نکات زیادہ اہم تھے،


(۱) مابعدجدیدیت یاسیت کی فضا سے نکل کر نئے سماجی اور ثقافتی ڈسکورس میں شمولیت کا اعلان کرتی ہے۔
(۲) مابعدجدیدیت کے زیراثر تخلیق کارمکمل ذہنی آزادی کو روا رکھتا ہے۔ کسی طے شدہ فکری نہج کو قبول نہیں کرتا۔
(۳) مابعدجدیدیت کا بیج اقتصادی، سماجی، سیاسی، ثقافتی اور ادب اور آرٹ کے حوالے سے مارکس کے خیالات میں ملتا ہے۔
(۴) عربی فارسی کے ساتھ ہندوستانی روایات کے اثرات کی قبولیت۔
(۵) استعاروں اورپیکروں کے ذریعے فطرت سے ایک ناگزیر تعلق۔
(۶) مابعدجدیدیت کی واضح خصوصیت ذہنی آزادی کی بحالی ہے جو غیرمشروط وابستگی کو منہا کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
(۷) پلورلزم Pluralism مابعدجدیدیت کی خاص الخاص دین ہے۔
(۸) مابعدجدیدیت کسی خاص نکتے پر مرتکز نہیں۔ اس کا دائرہ لامحدود ہے۔
(۹) سماجی آگاہی کے ساتھ ساتھ وجدانی، جبلی اور نفسیاتی تجربات کی رنگارنگی کی پیشکش۔
(۱۰) مابعدجدیدیت کسی اوپر سے لادے ہوئے نظریے یا رویے کی پیروی نہیں کرتی۔
(۱۱) مابعدجدیدیت میں حقیقت نگاری بھی ہے اور تجرید و علامت بھی، اساطیر بھی، فنٹاسی بھی اور سریت کے اثرات بھی۔
(۱۲) مابعدجدیدیت انحراف ہی کا نہیں انجذاب کا بھی نام ہے۔
(۱۳) تہذیب اور ثقافت کے رشتے کی مضبوطی۔
(۱۴) مابعدجدیدیت بین المتونیت کو اور ایک متن پر دوسرے متن کی تخلیق کے رجحان کو اہمیت دیتی ہے۔ معنی کی مرکزیت یا ادبی معیاروں کی فوقیت سے انکار کرتی ہے۔
(۱۵) جڑوں کی تلاش اور تہذیبی حوالوں کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔


ان کے علاوہ کچھ اور نکات بھی ضرور ہوں گے مگر مجھے جو قابل ذکر نظر آئے ہیں، میں نے اوپر ان کی نشاندہی کردی ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ان میں تکرار ہے، ایک ہی بات کو مختلف پیرایوں میں پیش کیا گیا ہے۔ بعض باتیں مثلاً ہندوستانی روایات کے اثرات کی قبولیت یا فطرت کے اثرات قبول کرنے کا رویہ یا سماجی آگاہی کے ساتھ ساتھ وجدانی، جبلی اور معاشرتی تجربات کی رنگارنگی کی پیشکش۔ یہ سب باتیں تو مابعد جدیدیت کے دور سے پہلے ہی اردو ادب میں داخل ہوگئی تھیں۔ البتہ جو باتیں کسی نہ کسی حد تک مابعد جدیدیت سے ہم رشتہ ہیں، وہ میں نے ان نکات سے اخذ کرلی ہیں۔ مثلاً،


(۱) ثقافتی ڈسکورس کی ابتدا اور جڑوں کی تلاش کا مسئلہ
(۲) غیرمشروط وابستگی سے انحراف
(۳) انجذاب
(۴) ڈسکورس کے دائرے کی لامحدودیت
(۵) ایک متن پر دوسرے متن کی تخلیق
(۶) Pluralism
(۷) معنی کی مرکزیت سے انحراف


آیئے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے کس نکتے کا مابعد جدیدیت سے تعلق ہے، کس کا ہائی ماڈرن ازم سے اور کس کا جدیدیت سے!


ہمارے ہاں ثقافتی ڈسکورس اور جڑوں کی تلاش کا مسئلہ چھٹی دہائی کی ابتداء میں سامنے آیا، جو مابعد جدیدیت سے پہلے کا دور ہے۔ بالخصوص پاکستان میں جڑوں کی تلاش کا مسئلہ اور ثقافتی پس منظر کو ابھارنے کا عمل اس دہائی میں شائع ہونے والی دو کتابوں یعنی ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ میں نمایاں ہوا۔ متفرق مضامین کی حد تک بہت سے ادباء اور شعراء نے ثقافتی جڑوں کی اہمیت کا احساس بھی اس دور میں دلایا۔ بعض نے اردو ادب کی جڑوں کوبرصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے مگر بعض نے مزید نیچے اتر کر وادی سندھ کی قدیم تہذیب سے جڑا ہوا پایا۔ بحیثیت مجموعی ان ادباء کا رویہ عمودی اور Archaeological تھا۔


مغرب میں نارتھ روپ فرائی نے اساطیری فضا کے اندر جھانکا اور لیوی سٹراس نے سوسیور کی لسانی تھیوری کی روشنی میں اساطیر کی رنگارنگی اور تنوع کے اندر ایک بے حد قدیم ’’مہااسطور‘‘ کو کار فرما پایا، جس کی حیثیت ’’لانگ‘‘ کی سی تھی۔ پس منظر میں ہمیں فرائڈ اور یونگ کی نفسیات بھی نظرآتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے شعور کے عقب یا بطون میں لاشعور (فرائڈ) اور اجتماعی لاشعور (یونگ) کی نشاندہی کی۔ ساختیات نے جب شعریات کا ذکر کیا تو تخلیق کے اعماق میں ثقافتی خطوط سے عبارت ادبی مواد کی Intertextuality کو موضوع بنایا۔ یہ سب کچھ مابعد جدیدیت سے پہلے ہوا۔ مغرب میں مابعد جدیدیت کا آغاز ساتویں دہائی میں ہوا بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ چھٹی دہائی کے آخری سالوں میں ہوا۔ ہمارے ہاں یہ نظریہ عام ہے اور اردو میں اس کی ابتداء ۱۹۸۰ء کے لگ بھگ ہوئی۔ کیا واقعی؟


دوسرا نکتہ ’’غیرمشروط وابستگی‘‘ سے انحراف کا ہے جسے مابعدجدیدیت کا امتیازی وصف قرار دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں کچھ سوچ بچار کرلی جائے تو اچھا ہے۔ مغرب میں ’’نئی تنقید‘‘ کو نہ صرف وکٹورین رویے سے انحراف قرار دیا گیا تھا بلکہ اس ’’غیرمشروط وابستگی‘‘ کا ردعمل بھی تصور کیا گیا تھا جو مارکسی نظریے کے تحت عام ہورہی تھی۔ ہمارے ہاں ۱۹۳۵ء کے لگ بھگ ’’انگارے‘‘ کی اشاعت اور اخترحسین رائے پوری کے ’’مضمون‘‘ سے غیرمشروط وابستگی کی ابتدا ہوئی۔ شروع شروع میں اسے ایک جدید رویہ گردانا گیا اورمارکسی اور غیرمارکسی ادباء میں تفریق نہ کی گئی مگر جب ۱۹۴۷ء کے لگ بھگ مارکسی ادباء نے مارکسی نظریات سے غیرمشروط وابستگی کا کھلم کھلا اظہار کرکے ایک سیاسی رنگ اختیار کیا توادباء تقسیم ہوگئے۔


ترقی پسند تحریک کے مقابلے میں حلقہ ارباب ذوق فعال ہوا، جس کا انداز اور زاویہ نظر مغرب کی ’’نئی تنقید‘‘ سے ہم آہنگ تھا۔ ’’نئی تنقید‘‘ نے مارکسی اور نفسیاتی نظریات بلکہ ہر قسم کے خارجی اثرات کی دخل اندازی کے خلاف دیواریں کھڑی کیں۔ تخلیق کی خودمختاری اور آزادی پر زور دیا۔ اس کے انوکھے پن، مطلق العنانی، خودکفالت اور منظم اکائی ہونے کا ذکر کرکے اسے ایک Verbal Icon کہا۔ وکٹورین دور میں مصنف کو تصنیف پر برتری حاصل تھی۔


’’نئی تنقید‘‘ کے زمانے میں تصنیف، مصنف پہ غالب آئی۔ مصنف کی کارکردگی غیراہم قرار پائی اور خود تخلیق کواس کے اجزاء کی باہمی آویزش اور انجذاب کی روشنی میں ’’پڑھا‘‘ گیا۔ اس قرأت کو Close Reading کا نام ملا۔ لہٰذا ’’غیرمشروط وابستگی‘‘ سے انحراف کے جس رویہ کو اردو اکادمی کے سمینار میں مابعدجدیدیت کی دین قرار دیا گیا ہے وہ اصلاً نئی تنقید کی دین تھا۔ اردو میں اس رویے کو حلقہ ارباب ذوق نے پروان چڑھایا۔


جہاں تک Pluralism کا تعلق ہے تواس کے کھلے پن کا ایک مفہوم تو معنی کی کثرت ہے اور دوسرا نظریات کی کثرت! معنی کی کثرت پر زور بھی ہمیں ’’نئی تنقید‘‘ میں ملتا ہے۔ ’’نئی تنقید‘‘ والے کسی ایک معنی کے تابع مہمل نہیں تھے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تویہ بھی مارکسی نظریے کے خلاف ایک ردعمل تھا کیونکہ مارکسی نظریہ ’’واحد معنی‘‘ کو، جو نظریے کا زائیدہ تھا، اہمیت دیتا تھا جبکہ نئی تنقید کثرت معنی کی مؤید تھی۔ پلورلزم کا دوسرا مفہوم نظریات کی کثرت ہے۔


’’نئی تنقید‘‘ نظریات کی کثرت توایک طرف رہی، خود نظریے کی دخل اندازی کے بھی خلاف تھی۔ لہٰذا پلورلزم کے اس مفہوم سے اسے کوئی علاقہ نہیں تھا۔ البتہ جب نئی تنقید کے بعد ساختیات کا چلن ہوا تو اس نے تخلیق کو اردگرد اور اندر باہر کی فضا سے لاتعلق نہ کہا۔ ساختیات والوں کا یہ موقف تھا کہ تخلیق محض سطح پر کارفرما آویزش اورٹکراؤ سے پھوٹنے والے معانی تک محدود نہیں ہے۔ تخلیق میں اصل چیز معنیاتی گہرائی ہے۔ گویا Surface اور Depth میں ایک رشتہ قائم کردیا گیا۔ ساختیات نے تخلیق کے اندر شعریات Poetics کی کارکردگی کواہمیت دی اور کہا کہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کس طرح شعریات کی کارکردگی سے معانی کی تخلیق ہوتی ہے۔ خود شعریات کوڈز اور کنونشنز کے حوالے سے ایک ثقافتی Inter Textual Construct تھی، لہٰذا نئی تنقید کی طرح ایک بند کائنات ہرگز نہیں تھی۔


ساختیات ایک سائنسی رویہ تھا جسے ہم Creedنہیں کہہ سکتے یہ ایک طریق یا Method تھا جو مصنف کی نفی کرکے قاری کو نمایاں کرنے پر مصر تھا کیونکہ قاری ہی شعریات کی اس کارکردگی کو ’’پڑھ‘‘ سکنے پر قادر تھا جو معانی کی تخلیق کا باعث تھی۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ ساخت کا نظریہ صرف ادب تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس نے لسانیات سے جنم لے کر انتھروپولوجی، نفسیات، مارکسی نظریات وغیرہ کو بھی مس کیا۔ جس طرح چوتھی اور پانچویں دہائی میں ’’نئی تنقید‘‘ ایک مقبول نظریہ تھا، اسی طرح چھٹی دہائی میں ساختیات بھی ایک Craze کی صورت اختیار کرگیا۔ اس کا بھی ردعمل ہوا جو پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کی صورت میں سامنے آیا۔


کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف معانی کی کثرت بلکہ تخلیق کی بنت میں نظری اور ثقافتی ادغام کی صورت بھی مابعدجدیدیت سے پہلے ہی منظرعام پر آنے لگی تھی لہٰذا Pluralityاور ادغام کی شروعات کو محض مابعدجدیدیت تک محدود کرنا شاید درست نہ ہوگا۔ البتہ اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ جس شے کو Pluralistic Anarchy کہنا چاہئے وہ مابعد جدیدیت ہی سے خاص تھی۔


اب کچھ ڈسکورس کے دائرے کی لامحدودیت کا ذکر بھی ہوجائے۔ اگر لامحدودیت کا مفہوم زمانے کی سیاسی، سماجی، ثقافتی، علمی، نظریاتی اور ادبی کروٹوں کے پھیلتے ہوئے آفاق سے ہم رشتہ ہوتا ہے تو یہ بھی مابعدجدیدیت سے پہلے ہی وجود میں آچکا تھا۔ چھٹی دہائی کے زمانے تک Genetic Code دریافت ہوگئی تھی اور ایٹم کے نیوکلس میں ہڈرونز Hadrons اور کوارکس Quarks کی کارفرمائی دیکھ لی گئی تھی اوراس ’’گہرائی‘‘ کا کچھ تصور بھی مرتب ہوگیا تھا جس کی کوئی تھاہ نہیں تھی۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ نیوکلس کے اندر کوئی End Particleنظر نہیں آرہا تھا۔ مادہ یا Substanceگویا غائب ہوگیا تھا یا یوں کہئے کہ دریدا کے معنی کی طرح مسلسل ملتوی ہوتا جارہا تھا۔ ہر Traceکے اندر مزید Traces دکھائی دے رہے تھے۔ اپنے زمانے میں بدھ مت نے ’’خواہش‘‘ کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اندر سے خالی ہوتی ہے۔ یعنی Bottomless ہے۔ اپنے وقت میں موجودیت نے بھی ایک ’’گہراؤ‘‘ کا ذکر کیا تھا جو ڈانٹے کے Inferno کی یاد دلاتا تھا۔ مابعدجدیدیت کے دور میں ساخت شکنی نے جب Abyssکا ذکر کیا تو اس تصور کے اندر بھی ’’گہراؤ‘‘ ہی کے Traces موجود تھے۔ دوسری طرف کائنات کی حدود میں بھی پھیلاؤ در آیا اور کائنات اصغر اور اکبر، دونوں لامحدود قرار پائیں۔


ادب کے معاملے میں بھی کسی ایک نظریے سے منسلک ہونے کے بجائے ایک آزاد ڈسکورس میں شریک ہونے کا منظرنامہ ابھرا۔ جس Intertextuality کو تخلیق کی بنت کاری میں دیکھا گیا تھا، وہ باہر کے ڈسکورس میں بھی کارفرما نظرآئی۔ طبیعات، فلسفہ، نفسیات، مارکسیت، تاریخ، حیاتیات، عمرانیات، لسانیات اور دیگر علمی شعبے ہم رشتہ ہوکر زندگی کی پراسراریت کی کنہ میں جھانکنے پر مستعد دکھائی دیے۔ مگر ڈسکورس کی حدود کے پھیلنے کا یہ منظرنامہ بھی مابعد جدیدیت کے زمانے سے پہلے ہی وجود میں آگیا تھا۔ لہٰذا اسے محض مابعد جدیدیت تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔


رہا ایک متن پر دوسرے متن کی تخلیق کا مسئلہ تواس کا اعزاز بھی ایک حد تک ’’نئی تنقید‘‘ اور ایک بڑی حد تک ساختیات کو ملنا چاہئے۔ ’’نئی تنقید‘‘ نے تخلیق کے ’’واحد معنی‘‘ پر معنی کی کثرت کے نظریے کو ترجیح دی اور درحقیقت متن کے متوازی ایک اور متن تخلیق کرنے کے لیے راستہ ہموارکردیا۔ تاہم ساختیات نے جب قار ی کو بہت زیادہ اہمیت دی اور اس کی قرأت کو ایک ایسا عمل قرار دیا جو متن کے مقابلے میں ایک اور متن تخلیق کرتا ہے توصورت حال تبدیل ہوگئی۔ اب یہ کہا جانے لگا کہ تخلیق کار تو محض ایک میڈیم ہے جسے لکھت وجود میں آنے کے لیے استعمال کرتی ہے مگر جب یہ لکھت وجود میں آجاتی ہے تو قاری اس کے ساتھ ’’کھیلتے‘‘ ہوئے ایک نیا متن تخلیق کرتا ہے۔ گویا تخلیق کے علی الرغم ایک اور تخلیق کو وجود میں لاتا ہے۔ یوں مصنف کی کارکردگی پر خط تنسیخ کھینچ دیا گیا۔


میں ذاتی طورپر ساختیات کی اس مصنف دشمنی کو یک طرفہ اور پایاب سمجھتا ہوں۔ اس کا زیادہ تعلق اس نظریے سے ہے جس نے مرکزیت اور Cogitoکو مسترد کرکے لامرکزیت اور ’’رشتوں کے جال‘‘ کے تصور کو پیش کیا تھا۔ خود ’’نئی تنقید‘‘ نے بھی مصنف کے مقابلے میں قاری کو اہمیت دی تھی لیکن ساختیات نے مصنف کو تصنیف باہر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔


اصل بات یہ ہے کہ تخلیق میں تین کردار حصہ لیتے ہیں۔ مصنف، متن اور قاری! مصنف تصنیف کے تاروپود میں اس طور رواں دواں ہوتا ہے جیسے لانگ، پیرول کے اندر! مصنف کو منہا کردیں تواس کا مطلب پیرول سے لانگ کو منہا کرنا قرار پائے۔ جہاں تک قاری کا تعلق ہے تواس کا کام تخلیق کو کھول کر اسے ازسرنو مرتب کرکے اس کی قلب ماہیت کرنا ہے اوریہ اس کا ایک اہم رول ہے۔ خود متن بھی بعض اوقات مصنف کی گرفت سے نکل کر لمحہ بھر کے لیے مطلق العنان ہوجاتا ہے۔ گویا یہ تینوں کردار اپنا الگ الگ وجود رکھتے ہیں تاہم تخلیق ان میں سے کسی ایک کی کارکردگی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے انضمام (بعض اوقات آویزش) اور Intertextuality کی زائیدہ ہے مگر خیر یہ توایک جملہ معترضہ تھا۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ متن پر ایک اورمتن کی تخلیق کا مظاہرہ فقط مابعد جدیدیت کے دور میں نہیں ہوا۔ یہ اس سے پہلے ہی نظر آنے لگ گیا تھا۔


آخری نکتہ معنی کی مرکزیت سے انحراف ہے۔ سمینار میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے اس نکتے پر خاص توجہ دی کہ مابعدجدیدیت معنی کی مرکزیت اور ادبی معیاروں کی آفاقیت سے مکمل انکار کرتی ہے۔ میرے نزدیک یہ وہ واحد نکتہ تھا جو مابعد جدیدیت کے امتیازی اوصاف میں سے ایک ہے۔ دیگر بیشتر نکات کسی نہ کسی حد تک مابعدجدیدیت سے پہلے کے ادوار سے ہم رشتہ نظرآتے ہیں۔ اس مقام پر یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مابعدجدیدیت کے امتیازی پہلوؤں کی نشاندہی کردی جائے۔


مابعدجدیدیت کے موضوع پر اردواکادمی دہلی کے سمینار میں زیادہ زور اس بات پر تھا کہ مابعدجدیدیت ’’نئی تنقید‘‘ کو مسترد کرتی ہے۔ حالانکہ نئی تنقید کا استرداد تو ساختیات نے کردیا تھا۔ مابعدجدیدیت (جس کا اہم ترین لکھاری دریدا کو کہا گیا ہے) نے دراصل ساختیات سے انحراف کیا۔ دوسرے لفظوں میں سمینار میں مابعدجدیدیت کو ماڈرن ازم کا ردعمل قرار دیا گیا نہ کہ ہائی موڈرن ازم High Modernism کا۔ واضح رہے کہ بیسویں صدی کی مغربی فکر (بالخصوص ادب کے حوالے سے) تین ادوار میں منقسم نظرآتی ہے۔ پہلا دور ماڈرن ازم کا ہے جس میں ’’نئی تنقید‘‘ کو فروغ ملا۔ خود ’’نئی تنقید‘‘ وکٹورین نقطہ نظر سے (جو مرکزیت کا موید تھا) انحراف کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کے بعد چھٹی دہائی میں ہائی ماڈرن ازم کو فروغ ملا اور ہائی ماڈرن ازم کی علمبردار ’’ساختیات‘‘ تھی۔ ساختیات نے ’’نئی تنقید‘‘ کے مخصوص رویے سے انحراف کیا اور تخلیق کو Verbal Icon کی جکڑ سے آزادی دلائی۔ نیزاندر اور باہر کی دنیاؤں سے تخلیق کے ’’تعلق‘‘ کو اجاگر کیا۔


چھٹی دہائی کے آخری ایام میں مابعدجدیدیت کے دور کا آغاز ہوا جو پس ساختیات یعنی Post Structuralism کا دور بھی تھا اوریہ آغاز دریدا کے اس مشہور مضمون سے ہوا جس میں اس نے مغربی فکر کے Logocentrism کے نظریے کو پوری طرح مسترد کردیا۔ لامرکزیت اس کا موقف تھا۔ اس نے آزاد کھیل یعنی Free Play پر زور دیا لیکن اس طرح کے آزاد کھیل پر نہیں جس کا ذکر کانٹ نے کیا تھا کہ وہ ’’دنیا کے اندر‘‘ ہورہا ہے۔ دریدا کا آزاد کھیل اصلاً ’دنیا کا آزاد کھیل‘ تھا۔ اس نے مرکز کی Ontological بنیاد پر کاری ضرب لگائی اور فرق Difference کی اہمیت کا احسا س دلایا۔


منطق، فرق کے عنصر پر زور دیتی ہے جبکہ ادب مشابہت اور مماثلت پر۔ اس اعتبار سے دریدا کا رویہ منفی تھا نہ کہ ادبی۔ اس نے فرق کے علاوہ معنی کے التوا کا بھی ذکر کیا۔ ساخت شکنی کا یہ عمل گہراؤ کے اندر اترنے (بلکہ گرنے) اور مسلسل گرتے جانے کا عمل ہے۔ ساخت شکنی دراصل ہست کو ایک گورکھ دھندا یعنی Labyrinth متصور کرتی ہے جس میں پھنسا ہوا شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ گہراؤ کے اندر ہی اندر گر رہا ہے۔ یہ گہراؤ اصلاً معنوی سطح کا نیچے ہی نیچے اترتا ہوا ایک سلسلہ ہے۔ یہ معنوی سطح گہراؤ کے اندر معنی کی ایک اور سطح یا تھاہ کو وجود میں لاتی ہے مگر ساخت شکنی کا عمل اس سطح کے اندر ایک Fault یا Rupture یا شگاف دریافت کرکے اسے Deconstruct کرتا ہے اور معنی لڑھک کر اس سے نچلی سطح پر چلا جاتا ہے۔


مگر ساخت شکنی کا عمل یہاں رک نہیں جاتا۔ یہ نچلی سطح پر پہنچ کر اسے بھی Deconstruct کر دیتا ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔ نہ تو معنی ہی کو آخری سطح نصیب ہوتی ہے اور نہ ساخت شکنی کا عمل ہی رکتا ہے۔ یہ کائنات ایک گورکھ دھندا ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لکھت کو متکلم لفظ پر فوقیت حاصل ہے اور لکھت کسی باہر کے تناظر کی مطیع نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کا زوال (Fall) ہے جس میں لکھت اپنے اندر ہی اندر اترنے کا منظر پیش کرتی ہے۔ یوں دریدا نے مغربی فکر میں Presence of Metaphysics کو یکسر مسترد کردیا اور بین المتونیت پر زوردیا، جس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ایک متن کو دوسرے متن کے سامنے رکھ کر پڑھا جائے بلکہ یہ کہ ہر متن پہلے ہی ایک Intertextual Construct ہے۔


دریدا کے نزذیک ساختیات مظہریت Phenomenology اور ہیئت پسندی، یہ سب مغرب کے مابعد الطبیعاتی فکر کی زائیدہ بھی ہیں اور علم بردار بھی۔ ساختیات کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا تھا (اوراس کا ذکر میں اپنے متعدد مضامین میں کرچکا ہوں) کہ ساختیات نے دراصل ’’مرکز‘‘ کو نیست ونابود نہیں کیا بلکہ ’’لامرکزیت‘‘ کو ایک برتر مرکزیت کی صور ت میں دیکھا جو ایک طرح کا صوفیانہ مسلک تھا۔ یعنی جزو ’’کل‘‘ کا محض طواف نہیں کرتا بلکہ خود جزو میں پورا کل سمایا ہوتا ہے۔ دریدا کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی۔ وہ تو لکھت کوایک Labyrinth قرار دیتا تھا جس کا نہ تو کوئی مرکزہ تھا، نہ پیندا، نہ ساخت! جس کے اندر لامرکزیت، فرق اور التوا کے ساتھ ساتھ معنی کی حتمیت سے مکمل انکار بھی مضمر تھا۔


گورکھ دھندا لکھت کو ہمارے سامنے ایک گہراؤ کے طورپر پیش کرتا ہے اور ہم معنی کے اس آزاد کھیل (یا جنگ) میں مبتلا نیچے ہی نیچے گرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ Apocalyptic رویہ مابعد جدیدیت کا بنیادی رویہ ہے۔ اب اگراس ساری صورت حال پر ایک نظر ڈالیں تو صاف محسوس ہوگا کہ نئی تنقید نے معنی کی کثرت پر زوردیا، ساختیات نے کثیرمعانی کی پیدائش کی Strategyپر غور کیا جبکہ ساخت شکنی نے معنی کی Absence پر زوردیا اور Absenceکا یہ تصور دراصل مرکزیت، منطق، سماجی شیرازہ بندی اور قدروں کی موجودگی پر خط تنسیخ کھینچنے کا تصور تھا۔ لہٰذا جب بھی مابعدجدیدیت کا ذکر آئے تو ہمیں اس کو جدیدیت کا مدمقابل قرا ردینے کے بجائے ہائی ماڈرن ازم کا ردعمل قرار دینا چاہئے۔


مابعد جدیدیت کیا ہے؟ اوپر اس کا کچھ ذکر ہوا۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اس موضوع پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا تھا جو میری کتاب Symphony of Existence میں شامل ہے۔ میں یہاں اس مقالے سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں تاکہ مابعد جدیدیت کے امتیازی شفاف سامنے آجائیں،


Modernism had logic of its own. It stood for the possibility of systematic, knowledge and the existence of an individual ago. High modernism also stood for the possibility of Systematic knowledge but its stress was on the structuring and not on the individual self of the author. Post Modernism decimated the individual subject and declared that systematic knowledge was not possible. For post-modernism the individual subject was a thing of the past. It now stood decimated and fragmented. Along with the individual subject the concept of humanism was also destroyed. The human subject, who had hitherto enjoyed a pivotol role as an historical agent collectively engaged in making life meaningful and rational, suddenly found himself encapsulated in a maze of absurdity. With the death of the Cogito or the Transcendental Signified or the PRESENCE, the Western man found himself entrapped in a labyrinth where meaning alluded him constantly. There was a perpetual regression of meaning. The State of 'becoming' now appeared as a play of forces, histories and fragments.


مابعدجدیدیت کا مطالعہ کریں تواس کے مندرجہ ذیل پہلوؤں سے تعارف حاصل ہوتا ہے:


(۱) منضبط علم کا حصول ناممکن ہے۔ (۲) Subjectکی اکائی پارہ پارہ ہے۔ (۳) انسان دوستی کا تصور ایک قصہ پارینہ ہے (۴) ماورائیت اور مابعد الطبیعاتی تصورات سے نجات پانا ضروری ہے (۵) گم شدہ ابتداء Originکی تلاش بے سود ہے۔ (۶) شگاف اور عدم تسلسل کی جانکاری لازمی ہے۔


ویدانت اور تصوف نے نظرآنے والی حقیقت کو ’’مایا‘‘ یا فریب نظرقرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اصل حقیقت ازلی وابدی ہے، تقسیم اور تفریق سے ماورا ہے، یکتائی اور وحدت کی علم بردار ہے۔ دوسری طرف مابعد جدیدیت بالخصوص دریدا نے ازلی و ابدی حقیقت سے انکار کیا۔ مرکزیت کے تصور کو مسترد کیا اور وہ جسے مایا یا فریب نظر کہا گیا تھا، اسے اصل حقیقت جانا مگر ساتھ ہی بھی کہا کہ یہ گورکھ دھندا ہے۔ ایک ایسا بے مقصد، بے سمت اور لامتناہی ’’آزاد کھیل‘‘ ہے جس میں معنی ہمہ وقت ملتوی ہورہا ہے۔ اصلاً یہ تصویر ڈانٹے کے جہنم کی ہے، جو ایک ایسا گہراؤ ہے جس کی کوئی تھاہ نہیں ہے اور چونکہ جہنم کا یہ تصور مغرب کی سائیکی کا غالب جزو ہے، لہٰذا جب کبھی کوئی بحرانی صورت حال وجود میں آئی ہے تو یہ تصور بھی ابھر کر سامنے آگیا ہے اور مغرب والے زوال آدم، قدروں کے انہدام، بے معنویت اور گہراؤ کے اندر معلق ہوجانے کے تجربے کو بیان کرنے لگے ہیں۔ دریدا اور اس کے حوالے سے مابعدجدیدیت نے یہی کچھ کہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اردو ادب بھی اس قسم کی مابعد جدیدیت کی زدپر آیا ہے؟


بے شک اردو ادب میں مابعد جدیدیت کے اثرات کے تحت کچھ چیزیں تخلیق ہوئی ہیں مگران میں سے بیشتر شعوری کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ مجموعی اعتبار سے اردو ادب کو جدیدیت اورہائی ماڈرن ازم نے نسبتاً زیادہ متاثرکیا ہے۔ بے شک وہ جدیدیت (نئی تنقید کا دور) کو عبور کر آیا ہے مگر جدیدیت کے بعض پہلو اسے آج بھی عزیز ہیں۔ البتہ ہائی ماڈرن ازم سے اس نے گہرے اثرات قبول کیے ہیں، گو اس کی بعض باتوں کو بھی اس نے مسترد کیا ہے۔ جدیدیت سے اس نے ’’غیرمشروط وابستگی کے استرداد‘‘ کا رویہ قبول کیا اور تخلیق کی Close Reading کا نسخہ سیکھا جو نظم اور افسانے کے تجزیاتی مطالعوں کی صورت اردو ادب میں عام ہورہا ہے۔ ہائی ماڈرن ازم سے اس نے سطح Surface اور گہرائی Depth کے ربط باہم نیز متن کی Intertextuality اور قرأت کے تخلیقی کردار کا تصور اخذ کیا۔ تاہم مصنف کو منہا کرنے اور انسان دوستی کے تصور کو مسترد کرنے کے میلان کو قبول نہیں کیا۔ اس کا اندازہ سمینار کے ان شرکاء کے بیانات سے بھی ہوتا ہے جنہوں نے مختلف اصناف ادب میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً،


’’آج کا نظم نگار کسی طے شدہ نہج کو قبول نہیں کرتا۔ وہ مکمل ذہنی آزادی کو روا رکھتا ہے۔ اس کے یہاں سماجی حالات کی بازدید کا احساس ملتا ہے۔ وہ سماجی آگاہی کے ساتھ ساتھ وجدانی، جبلی اور نفسیاتی تجربات کی رنگارنگی کو پیش کرتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر حامدی کاشمیری)


ڈاکٹر حامد کاشمیری کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے۔ ترقی پسند حضرات کو غیرمشروط وابستگی کے تصور کو تج کر جدید نظم نگار نے اندر اور باہر کی کائنات میں معنی آفرینی کا جو منظر نامہ پیش کیا ہے، وہ ایک مثبت عمل ہے، جو سماجی آگاہی اور وجدانی، جبلی اور نفسیاتی تجربات سے عبارت ہے۔ گویا یہ ایک منظم اورمرتب عمل ہے جو مابعدجدیدیت کے مزاج سے کم اور ہائی ماڈرن ازم کے زمانے میں پیدا ہونے والے منظرنامہ سے زیادہ منسلک اور مربوط ہے۔


اسی طرح اردو ناول کے باب میں خورشیداحمد نے یہ نکتہ پیش کیا کہ اس دورکے قابل ذکر ناولوں کو دو حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ ایک تو وہ ناول جو ’’حقیقت پسند روایت کو نیا تناظر دیتے ہیں، دوسرے وہ جو حقیقت پسندی کے مسلک کو مسترد کرکے مختلف نئی اورپرانی تکنیکوں کا سہارا لیتے ہیں۔ انہیں مابعد جدید ماڈل کہا جاسکتا ہے۔‘‘ مگر کیا واقعی؟ کیونکہ خورشید احمد نے یہ تقسیم جدیدیت اورمابعدجدیدیت کے درمیان نہیں کی بلکہ حقیقت پسندی (جو ترقی پسندی کا موقف تھا) اورجدیدیت میں کی ہے۔ لہٰذا جن ناولوں کا خورشیداحمد نے ذکر کیا ہے ان پر غور کرنا ہوگا کہ کیا وہ مابعد جدیدیت کی عکاسی کرتے ہیں یا جدیدیت اور ہائی ماڈرن ازم کی؟


واضح رہے کہ حقیقت پسندی کے تین پہلو زیادہ اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ آرٹ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے (یہ بات افلاطونی نظریے کے باقیات میں سے ہے) دوسرا یہ کہ ’’زبان‘‘ ایک شفاف میڈیم ہے جس میں سے ہم ’’حقیقت‘‘ کو دیکھتے ہیں، آخری یہ کہ معنی آواز کا پیش رو ہے۔ جدیدیت اور ہائی ماڈرن ازم نے ان تینوں باتوں کو مسترد کرکے جو نیا منظر نامہ پیش کیا ہے اس کے تناظر میں ہمارے نئے ناول ضرور آتے ہیں مگر مابعدجدیدیت کے آزاد کھیل، انسان دوستی سے انحراف اور معنی کے التواء کے رویے کو ان ناولوں نے بہت کم شرف قبولیت بخشا ہے۔


بلراج کومل نے مابعدجدید ناول کے بارے میں کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی، ہجرت اور نقل مکانی، اقدار کا انہدام، رشتوں کی نئی ترتیب، سماجی سروکار۔ یہ سب مابعدجدیدیت ناول کا حصہ ہیں۔ یہ بات درست ہے مگریہ منظرنامہ تو ہمیں جدیدیت کے دور میں بھی نظرآتا ہے اور مابعد جدیدیت سے پہلے کے اس دور میں بھی ملتا ہے جسے ہائی ماڈرن ازم کا نام ملا ہے۔ علاوہ ازیں اس بات پر بھی غور کرلینا چاہئے کہ مغرب میں مابعد جدیدیت دراصل ہائی ماڈرن ازم سے انحراف یا بغاوت کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ وہ معنی کے التوا اور آزاد کھیل پر زور دینے کے علاوہ منظم علم کے حصول کے امکان کی نفی کرتی تھی اور انسان دوستی کے مسلک کے بھی خلاف تھی جبکہ اردو کے جن ناولوں کا ذکر ہوا ہے وہ ایک ہمہ وقت تبدیل ہوتی دنیا کا ایک منظم اور مربوط بیانیہ ہیں اور انسان دوستی کی اساس پر استوار ہیں۔ انسان دوستی کا رویہ ترقی پسندی اور نئی تنقید میں ایک قدر مشترک کی حیثیت رکھتا تھا جبکہ انسان دوستی کی نفی کا میلان، کم یا زیادہ، ساختیات اور ساخت شکنی کو عزیز رہا ہے۔ انسان دوستی کے حوالے سے اردو ناول، افسانہ، نظم، سب ترقی پسندی اور نئی تنقید سے متاثر ہیں جبکہ نظریے کے غلبہ سے انحراف کے رویے کو جدیدیت اور ہائی ماڈرن ازم سے اخذ کیا گیا ہے۔


اردواکادمی دہلی کے اس سہ روزہ سمینار کے بارے میں جو رپورٹ مجھے ملی ہے، اس سے یہ تاثر مرتب ہوتا ہے کہ اس سمینار کے شرکاء نے اردو ادب (نظم، ناول، تنقید، افسانہ، غزل) کی بدلتی ہوئی صورت حال کو بڑی خوبی اور دیانت سے پیش کیا ہے۔ آج کا ادب، جیسا کہ جوگیندرپال کا خیال ہے مباحث ہی نہیں بلکہ تخلیق کی طرفیں بھی کھلی رکھنا جانتا ہے۔ (گویا نظریے اور مسلک کی حتمیت سے گریزاں ہے) آرتھر کوئسلر نے Holon کا جو تصور پیش کیا تھا، وہ بھی طرفوں کے کھلے ہونے پر زور دیتا تھا، جس کا مطلب بھی یہی تھا کہ حتمیت سے اجتناب کیا جائے تاکہ ڈسکورس کی حدود پھیلنے لگیں۔ آج کے اردوادب میں اس ذہنی جہت کی کارفرمائی صاف نظرآتی ہے۔


علاوہ ازیں ثقافتی جڑوں کو دریافت کرنے اور خود کو ان سے منسلک دیکھنے کا رجحان بھی ابھرا ہے جو ایک مثبت عمل ہے۔ سماجی شکست وریخت کی تصویر کشی بھی دراصل سماجی شیرازہ بندی کی خواہش کا اعلامیہ ہے اورانسان دوستی پر دال ہے۔ یہ مغرب کے Apocalyptic رویے سے ابھرنے والے اس اعصابی خوف سے ہم رشتہ نہیں جو یاسیت اور نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں کے احساس پر منتج ہوا ہے۔ مغرب میں جدیدیت اور ہائی ماڈرن ازم کا دور تین دہائیوں پر مسلط رہا۔ (۱۹۴۰ء تا ۱۹۷۰ء) مگراس کے مابعد جدیدیت کا دور آیا جس نے حقیقت کے بارے میں ایک ایسے خیال کو فروغ بخشا جو Non Concept کی اساس پر استوار ہونے کے باوجود ایک Concept تھا جس طرح Anti-Matter دراصل Matter کی نفی نہیں بلکہ اس کاایک اپنا منفرد وجود ہوتا ہے، اسی طرح مابعد جدیدیت، نظریے کے فقدان کی نہیں بلکہ Non-Concept کے نظریے کی موید ہے۔


سوچنے کی بات ہے کہ کیا اردو ادب نے مابعدجدیدیت کے زاویے کو قبول کرکے نیا اسلوب اختیار کیا ہے؟ شاید ایسا نہیں ہوا۔ اس نے بیسویں صدی کے ربع آخر کے بدلتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی منظرنامہ کو محض بیان نہیں کیا بلکہ اس کی سطح اورگہرائی میں ایک رشتہ بھی قائم کیا ہے۔ اس نے ایک بے بس انسان کی طرح اپنے سامنے دنیا کو ’’گہراؤ‘‘ میں گرتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ ’’گہرائی‘‘ میں غوطہ لگاکر خودکو Depth عطا کی ہے۔ گہراؤ کے منفی معنی کے بجائے گہرائی کے مثبت معنی کو قبول کرنا مغرب کی مابعد جدیدیت سے ایک بالکل مختلف انداز نظر ہے۔


میرا یہ خیال ہے کہ اردو اکادمی دہلی کے سہ روزہ سمینار میں ہونے والی بحث کا عنوان صحیح تجویز نہیں ہوا۔ بہتر ہوتا کہ اس کا عنوان’’آج کا اردو ادب‘‘ ہوتا۔ شرکاء نے بھی زیادہ تر آج کے اردو ادب ہی کو موضوع بنایا ہے اوران جملہ فکری، ثقافتی اور لسانی تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے جو ۱۹۸۰ء کے بعد نہیں بلکہ ۱۹۶۰ء کے بعد ہی رونما ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ مگر بوجوہ سمینار کے موضوع کا عنوان ’’مابعدجدیدیت‘‘ رکھا گیا تاکہ جدیدیت (مراد نئی تنقید) کے خلاف اسے ایک ردعمل کے طورپر پیش کیا جاسکے۔


ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کسی شعوری اقدام کے تابع تھا؟ سب جانتے ہیں کہ اس وقت بھارت میں دوتنقیدی مکتب آپس میں متصادم ہیں۔ ایک نئی تنقید کا مکتب جو ساختیات اور پس ساختیات کومسترد کرتا ہے اور دوسرا مابعد جدیدیت کا مکتب جو ’’نئی تنقید‘‘ کی نفی کرتا ہے مگر مجھے یہ جنگ بے معنی نظرآتی ہے، اصل جنگ توترقی پسندی اور جدیدیت کے مابین تھی جہاں نظریاتی اختلافات بہت توانا تھا۔ مگرجدیدیت، ہائی ماڈرن ازم اور مابعدجدیدیت تو ایک ہی سفر کی تین منازل ہیں۔ جدیدیت (ماڈرن ازم) کی آخری منزل جب آئی تو ساختیات نے اسے مسترد کیا مگرپوری طرح نہیں، اس کی بعض باتوں کو اپنا بھی لیا (یا یوں کہہ لیں کہ یہ باتیں بطور Tracesساختیات کے نظریے میں موجود رہیں) اسی طرح جب ساختیات (ہائی ماڈرن ازم) کی آخری منزل آئی تو مابعدجدیدیت (بالخصوص ساخت شکنی) نے اسے مسترد کیا تاہم اس کی بعض باتوں کو اپنائے رکھا۔ لہٰذا ان میں بعد المشرقین دریافت کرنے کے بجائے انہیں ایک ہی ساخت کے ایسے مختلف خطوط قرار دینا زیادہ مناسب ہوگا جن کے ادغام سے ڈسکورس کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔


فریڈرک جیمرسن نے تو یہ تک لکھ دیا ہے کہ مابعدجدیدیت دراصل جدیدیت ہی کی ایک نئی صورت ہے بعینہ جیسے خود جدیدیت، رومانویت کی توسیع تھی۔ دراصل مابعدجدیدیت کے دورکو ایک وسیع تر منظرنامے کی صورت میں دیکھنا چاہئے جس میں جدیدیت، ہائی ماڈرن ازم، ساخت شکنی اور دوسرے نظریوں نے مل جل کر ایک ایسی ’’ادبی تھیوری‘‘ کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے جو امتزاج پر منتج ہورہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بحث کے عنوان کی حدود کو پار کرکے شرکاءنے جس منظرنامہ کو پیش کیا، وہ مابعد جدیدیت کے مخصوص معنی کو عبور کر گیا۔ رچرڈ ہالینڈ نے اس منظرنامہ کو Super Structuralism کا نام دیا تھا جس میں ساختیات، نشانیات ایتھوسوی مارکیت، فوکو کے نظریات، لاکانی نفسیات، نسوانی، تنقید اور پس ساختیات کے دیگر زاویے باہم آمیز ہورہے تھے۔ اسے مابعدجدیدیت کا نام نہیں دینا چاہئے جو زیادہ تر Anti-Modernism کے روپ میں ابھری ہے۔ اس کے لیے موزوں ترین نام Super Modernism یا Super Structuralism ہے۔


جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے اس میں ابھی زیادہ ترجدیدیت اور ہائی ماڈرن ازم کے اثرات بھی کسی حد تک در آئے ہیں تاہم چونکہ مابعدجدیدیت مغرب کی سائیکی کی پیداوار ہے جو مشرق کی سائیکی سے ایک الگ اورجدا مزاج رکھتی ہے، اس لیے میرا خیال ہے کہ اردو میں مابعد جدیدیت کے اس خاص مزاج کے فروغ پانے کے امکانات بہت کم ہیں جو مغرب میں عام ہوا ہے۔ اسی لیے میں نے عرض کیا ہے کہ اردو اکادمی دہلی کے اس خیال افروز سہ روزہ سمینار پر مابعدجدیدیت کا لیبل لگانے سے ویسی ہی صورت حال کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو مارکسیت، جدیدیت اور ساختیات کے لیبلوں کے باعث پیدا ہوئی تھی۔


ویسے یہ بات بھی دلچسپی سے شاید خالی نہ ہو کہ اس سمینار میں ہونے والی بحث ایک منظم اور مربوط ڈسکورس تھا جس نے کہیں بھی ’’آزاد کھیل‘‘ کی صورت اختیار نہ کی اور نہ معنی کے مستقل التوا کا منظر ہی پیش کیا۔ اکثر ادبا بنیادی نکات کے سلسلے میں ہم خیال تھے۔ سب کے ہاں انسان دوستی، قدروں کی بقا کی خواہش اور ایک ایسے سسٹم کی موجودگی کا اعتراف تھا جو ایک طرف موجود کو ماورا سے اور دوسری طرف (موجود) کو ’’گہرائی‘‘ سے منسلک کرتا ہے، کہیں بھی گہراؤ کے اندر معلق ہونے کے نیوراتی احساس کی کارفرمائی دکھائی نہیں دی۔ سب کے ہاں ’’منظم علم‘‘ کے حصول کا یقین موجود تھا۔


ایسی صورت میں کیا ہم اس سمینار کو محض مابعدجدیدیت کے اس تصور سے ہم آہنگ قرار دے سکتے ہیں جس نے مغرب کے بعض حلقوں میں ایک طرح کا کریز پیدا کردیا ہے؟ اس کے بجائے اسے Superstructuralism یا Supermodernism یا امتزاجی میلان کا نام دیں تو بہتر ہے جو ذہنی آزادی کی فضا میں کسی آئیڈیالوجی کے تابع ہوئے بغیر ایک ایسے منظرنامہ کی عکاسی کرتا ہے جو دائرہ در دائرہ پھیل رہا ہے یعنی ایک ایسے فریم ورک کا عکاس ہے جسے فوکو نے Epstemeکا نام دیا تھا۔