جدید طرز زندگی کی آزمائش
قیامت کے دن ہر انسان سے پوچھا جانے والا دوسرا لازمی سوال:
وعن شبابہ فیما ابلاه
اس نے اپنی جوانی کو کہاں لگایا/کھپایا؟
• نشے کی لت لگ گئی تو جوانی تباہ ہو جائے گی۔ اور بڑھاپا نجانے آئے گا یا نہیں؟ معلوم نہیں۔ایسا انسان اپنے ساتھ ساتھ خود سے منسلک ہر فرد کو تکلیف میں رکھے گا۔ جو جوانی دین کی سر بلندی کے لیے کھپانی تھی، جو جوانی اپنی اور اپنوں کی زندگی سنوارنے، دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے وقف کرنا تھی۔ وہ جوانی نشے کی سولی پر لٹک جائے گی۔
• اگر جُوئے میں پڑ گیا تو سب کچھ تباہ و برباد کر دے گا۔ ماں باپ کی، بہن بھائیوں کی اور اپنی جمع پُونجی لُٹا کر خالی ہاتھ ہو کر بیٹھا رہ جائے گا۔ کام دھندے کی عادت رہے گی نہیں۔ کام دھندہ اب کر نہیں کر سکتا۔ گھر کا سامان بیچ بیچ کر گزارا کرے گا۔ بیوی کو میکے سے پیسے لانے کے لیے بولے گا۔ لوگوں سے ادھار مانگ مانگ کر جُوئے میں لگائے گا۔ جیتے گا تو حرام کا پیسہ جمع کرنے کی پیاس مزید بڑھے گی۔ اگر ہارتا جائے گا تو جنونیت کی حد تک اس حرام کھیل کو کھیلے گا۔ جُوئے کو چھوڑے گا نہیں۔ جوانی میں ہی نیم پاگل ہو جائے گا۔
نوجوانوں کی جوانیاں تباہ کرنے کے لیے فی زمانہ بے شمار راستے کسی مقناطیس کی طرح نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔
ان تمام برائیوں سے بچتا بچاتا ہوا وہ نوجوان کہ جو اپنی جوانی میں اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگ گیا۔ خود کو دنیا میں مشغول رکھنے کے باوجود برے راستے سے بچنے میں کامیاب ہو گیا۔ جوانی میں اہلِ حق کا ساتھی رہا۔ جس نے جوانی کی گھڑیاں رب کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے، شریعت پر چلتے ہوئے اور قرآن پڑھتے، سمجھتے اور سمجھاتے ہوئے گزار دیں۔ ایسے شخص کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بڑے انعام اور بہت ہی بڑی کامیابی کا اعلان کر رکھا ہے۔
فرمایا:
قیامت کے انتہائی سخت، کربناک اور لمبے دن میں اللہ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا۔ ان سات آدمیوں میں سے ایک:
"و شاب نشاَ فی عبادة اللہ۔
ترجمه: اور ایک وہ نوجوان کہ جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری، اسے بھی اللہ قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ عطا کر کے قیامت کے کرب، ہولناکی اور گرمی سے بچا لے گا۔
صحیح بخاری
(یہ کلمات فقط مردوں کے لیے نہیں ہیں۔ بلکہ وہ خواتین بھی ان میں شامل ہیں جو اپنی جوانی کو عبادات اور اللہ کی فرمانبرداری سے آراستہ کرتے ہوئے زندگی گزارتی ہیں)
اور جس نے جوانی اللہ کی نافرمانیوں میں تباہ کر دی، برے راستے کو چن لیا۔ اس کے پاس بڑھاپے میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہے گا۔ بڑھاپے میں زیادہ عبادت کرنا منع نہیں ہے۔ لیکن بڑھاپے کی عبادت جوانی کی عبادت کی مٹھاس اور اجر کو کبھی نہیں پا سکتی۔ زندگی کا سب سے زیادہ بے لگام دور اور خواہشات سے لبریز سرکشی کی جانب دوڑتا ہوا نفس بڑھاپے میں خود ہی قابو میں آ جاتا ہے۔ جبکہ جوانی میں اسے زبردستی قابو کرنا اور سیدھے راستے پر ڈالنا ہی دراصل جوانی کی عبادت کو مقبول ترین عبادات میں داخل کرتا ہے۔
قیامت میں ہونے والا یہ سوال بے حد اہم اور لرزا دینے والا ہے:
کہ:
"اے آدم کے بیٹے! بتا تُونے اپنی جوانی کو کن کاموں میں کھپایا؟"
محمد یاسر لاہوری