جب تلک در پیش کوئی حادثہ ہوتا نہیں

جب تلک در پیش کوئی حادثہ ہوتا نہیں
زندگی کیا ہے ہمیں اس کا پتہ ہوتا نہیں


سیدھا رستہ دیکھنے میں یوں تو ہے آساں مگر
جب چلو اس پر تو یہ آسان سا ہوتا نہیں


سب نے پہنی ہیں قبائیں شہر بھر میں ایک سی
کون کیسا ہے یہاں اس کا پتہ ہوتا نہیں


ہے یہ نا ممکن نظر آ جائے جلوہ گاہ ناز
سجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں


ہم نہ دیکھیں یہ الگ سی بات ہے لیکن ظفرؔ
کون سی شے ہے جہاں وہ رونما ہوتا نہیں