جب سے مرقوم ہو گیا ہوں میں
جب سے مرقوم ہو گیا ہوں میں
نقش مفہوم ہو گیا ہوں میں
ذلتوں نے پناہ مانگی ہے
اتنا مذموم ہو گیا ہوں میں
پوچھو مصلوب کرنے والوں سے
اب تو معصوم ہو گیا ہوں میں
جو ازل سے نہ تھا مقدر میں
اس سے محروم ہو گیا ہوں میں
کیسا موسم ہے اس علاقے کا
جس سے مسموم ہو گیا ہوں میں
اپنی قسمت سے مات کھا کر بھی
تیرا مقسوم ہو گیا ہوں میں
مسکراہٹ نگر میں اے اخترؔ
آ کے مغموم ہو گیا ہوں میں