جب سفر کو میں نے تھاما تھا یہ اندھا راستہ
جب سفر کو میں نے تھاما تھا یہ اندھا راستہ
آج روتا ہے مگر قدموں سے لپٹا راستہ
تیرتی پھرتی ہیں چاروں سمت رنگیں تتلیاں
ٹیڑھا ٹیڑھا اونچا نیچا گیلا کچا راستہ
کون سنتا تھا کسی کی کوئی کیا کہتا وہاں
میرے کاندھے پہ سفر تھا میں نے پکڑا راستہ
وہ جو گزرا تھا یہاں سے کیا پتہ لوٹے کبھی
کیا خلا میں تاکتا رہتا ہے تنہا راستہ
مجھ کو جلتی آگ ملتی تم کو ٹھنڈا آب جو
اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا راستہ
ریشہ ریشہ زخم تھا لوٹا سفر سے جب شمیمؔ
اور مجھ سے بھی زیادہ ہانپتا تھا راستہ