جب نگاہ طلب معتبر ہو گئی

جب نگاہ طلب معتبر ہو گئی
منزل شوق دشوار تر ہو گئی


ساعت غم بھی کیا مختصر ہو گئی
تیری یاد آئی تھی کہ سحر ہو گئی


ہر حقیقت خود اپنی خبر ہو گئی
بدعت رنگ صرف نظر ہو گئی


رات محفل میں وہ بے نقاب آئے تھے
اور ہم نے یہ سمجھا سحر ہو گئی


اپنے پندار کی لاش ڈھوتے رہے
زندگی اپنی اس میں بسر ہو گئی


آئینے سے پلٹتی رہی ہر کرن
ہر نظر اپنی ہی پردہ در ہو گئی


کوئی الزام جلووں پہ آیا نہیں
بے بسی آنکھ کی مشتہر ہو گئی


وہ جو آئے تو سیلاب نور آ گیا
روشنی خود ہی سد نظر ہو گئی


چارہ سازی نہ کی حیف نظروں ہی نے
ہم نے سمجھا دعا بے اثر ہو گئی


ہائے پھر تیری باتوں میں دل آ گیا
پھر فسوں ساز تیری نظر ہو گئی


اپنے عجز نظر کا بھرم کھل گیا
بے حجابی تری دیدہ ور ہو گئی


طرزیؔ قدموں کے بدلے جبینیں ملیں
نارسی قسمت سنگ در ہو گئی