جب ایک خوف سا مرنے کا سر پہ بیٹھ گیا

جب ایک خوف سا مرنے کا سر پہ بیٹھ گیا
عجیب سایہ نحوست کا گھر پہ بیٹھ گیا


یہی کہانی تھی بس اپنی بادشاہت کی
فقیر ایک اٹھا ایک در پہ بیٹھ گیا


کہیں تو شہر میں ان بن کسی کے ساتھ ہوئی
جو دنیا چھوڑ کے ساری وہ گھر پہ بیٹھ گیا


تکلفات میں کچھ تو لحاظ باقی تھا
ذرا سی ڈھیل بھی کیا دی وہ سر پہ بیٹھ گیا


کسی کی جھوٹی اڑائی ہوئی سی بات سنی
زمانہ کان لگا کر خبر پہ بیٹھ گیا


سوار ہم ہوئے ایسے ہوا کے کاندھے پر
ہمارا پاؤں بھی جیسے سفر پہ بیٹھ گیا