جب بھی تنہائی کبھی ہوتی ہے حاصل مجھ کو

جب بھی تنہائی کبھی ہوتی ہے حاصل مجھ کو
وقت رکھ دیتا ہے میرے ہی مقابل مجھ کو


آخری عمر کی افتاد گئی طبع کی خیر
راس آتا ہے الم زار نہ محفل مجھ کو


ایک بار اور میں جی پاؤں تو شاید حل ہوں
زندگانی نے دئے ایسے مسائل مجھ کو


عشق اتنا بھی ہے کافی کہ تجھے چاہتا ہوں
اتنا حاصل ہے تو کیا کچھ نہیں حاصل مجھ کو


جب بہار آئی توانائی بھی واپس آئی
قید میں رکھ نہ سکے بند و سلاسل مجھ کو


اتنی اونچائی سے تو میری زبوں حالی دیکھ
جتنی دوری سے نظر آتا ہے ساحل مجھ کو


مجھ کو معذور بناتی ہے مری کم یابی
نظر آتا ہے خریدار نہ سائل مجھ کو


میں ترے لطف سے نادم ہوں مگر عرض ہے یہ
اب سمندر سے بنانا نہیں ساحل مجھ کو


میں نے کشکول جو ہاتھوں میں لیا تو عابدؔ
ساری دنیا نظر آنے لگی سائل مجھ کو