جب بھی گلشن میں چلی ٹھنڈی ہوا

جب بھی گلشن میں چلی ٹھنڈی ہوا
اور پاگل کر گئی ٹھنڈی ہوا


پہلے تو ایسی نہ تھی ٹھنڈی ہوا
ہو گئی کیوں دل جلی ٹھنڈی ہوا


سن کے اس کی بات غنچے ہنس پڑے
کان میں کیا کہہ گئی ٹھنڈی ہوا


ان کے ہونٹوں کا جو کر آئی طواف
پا گئی کچھ نغمگی ٹھنڈی ہوا


ہے دل ناکام سے اچھی نہیں
چھیڑ خانی بھی تری ٹھنڈی ہوا


سچ بتا میری طرح کیا ان کی بھی
بے قراری تھی بڑھی ٹھنڈی ہوا


زخم دل جس سے ہوا کچھ مندمل
کوچۂ جاناں کی تھی ٹھنڈی ہوا


دیکھ لیتے ہم بھی تیرا کچھ کمال
کھلتی گر دل کی کلی ٹھنڈی ہوا


اک پریشاں دل کا کہہ دے گی سلام
ملنا ان سے گر کبھی ٹھنڈی ہوا


طرزیؔ ایسا ہے اسیر غم ترا
حال پر جس کے ہنسی ٹھنڈی ہوا