جب بھی آنکھوں میں تری رخصت کا منظر آ گیا

جب بھی آنکھوں میں تری رخصت کا منظر آ گیا
آفتاب وقت نیزے کے برابر آ گیا


دوستی کی جب دہائی دی تو شرق و غرب سے
ہاتھ میں پتھر لیے یاروں کا لشکر آ گیا


اس سفر میں گو تمازت تو بہت تھی ہجر کی
میں تری یادوں کی چھاؤں سر پہ لے کر آ گیا


گو زمین و آسماں مصروف گردش ہیں مگر
جب بھی گردش کا سبب سوچا تو چکر آ گیا


آدمی کو حشر کے منظر نظر آنے لگے
اس کے قبضے میں جب اک ذرے کا جوہر آ گیا


حسن انساں دفن ہو جانے سے مٹتا ہے کہاں
پھول بن کر خاک کے پردے سے باہر آ گیا


اشک جب ٹپکے کسی بیکس کی آنکھوں سے ندیمؔ
یوں لگا طوفان کی زد میں سمندر آ گیا