جب اشک تری یاد میں آنکھوں سے ڈھلے ہیں
جب اشک تری یاد میں آنکھوں سے ڈھلے ہیں
تاروں کے دیے صورت پروانہ جلے ہیں
سو بار بسائی ہے شب وصل کی جنت
سو بار غم ہجر کے شعلوں میں جلے ہیں
ہر آن امنگوں کے بدلتے رہے تیور
ہر آن محبت میں نئی راہ چلے ہیں
مہتاب سے چہرے تھے ستاروں سی نگاہیں
ہم لوگ انہی چاند ستاروں میں پلے ہیں
نوچے ہیں کبھی ہم نے حوادث کے گریباں
ناکامیٔ کوشش پہ کبھی ہاتھ ملے ہیں
تاریک فضاؤں کے ابھرتے رہے طوفاں
پھر بھی تری یادوں کے دیے خوب جلے ہیں
کیا جانیے یہ رند برے ہیں کہ بھلے ہیں
ساقی کی نگاہوں کے اشاروں پہ چلے ہیں
محسوس یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی بہاریں
اس گل کدۂ ناز کے سائے کے تلے ہیں
یونہی تو دل آویز نہیں شعر تبسمؔ
یہ نقش ترے حسن کے سانچے میں ڈھلے ہیں