جب امن کے آثار دیکھتے ہیں

جب امن کے آثار دیکھتے ہیں
ماحول شرر بار دیکھتے ہیں


ہے فرض یہاں کس پہ شہریاری
سب اپنی ہی دستار دیکھتے ہیں


آئنہ تو سب دیکھتے ہیں لیکن
ہم آئنہ بردار دیکھتے ہیں


میں میل کا پتھر ہوں مجھ کو رہرو
مڑ مڑ کے کئی بار دیکھتے ہیں


جو لوگ تھے بدنام شہر بھر میں
وہ لوگ بھی کردار دیکھتے ہیں


وہ ہار میں بھی شرمسار ہے کب
ہم جیت میں بھی ہار دیکھتے ہیں


ہے خوب سخنؔ عشق نیک طینت
ہم روح کو سرشار دیکھتے ہیں