جاؤں کہاں شعور ہنر کس کے پاس ہے
جاؤں کہاں شعور ہنر کس کے پاس ہے
آنکھیں ہیں سب کے پاس نظر کس کے پاس ہے
حد نظر میں منزل مقصود ہے مگر
جائے گا کون رخت سفر کس کے پاس ہے
زخموں میں ہو رہے ہیں اضافے نئے نئے
لیکن نہیں خبر کہ تبر کس کے پاس ہے
ہم ہیں بقول ان کے اگر تیرگی پسند
پھر دوستو کلید سحر کس کے پاس ہے
میں قامت شجر کا پجاری نہیں اسدؔ
مجھ کو یہ دیکھنا ہے ثمر کس کے پاس ہے