جانی میاں
یہ کہانی تین آدمی سنا رہے ہیں۔ ایک تو میں ہوں راوی، الگ تھلگ رہ کے قصّہ سنانے والا۔ میں کہانی میں چلتا پھرتا نظر نہیں آؤں گا۔ دوسرا زَوّار ہے۔ یہ سلطان بھائی کی گول پیٹھے والی دکان، گوالیار سائیکل مارٹ پر نوکر ہے۔ اُن کا اسسٹنٹ سمجھ لو۔ تیسرا جانی میاں کا چمچا وحید ہے۔ یہ ان کا رکھوالا ہے۔ اسے جاننے کے لیے جانی میاں کو سمجھنا ضروری ہے۔ جانی میاں رام پور کے زمیں دار ہیں۔ چالیس کے قریب ان کی عمر ہو گی، مگر ہاتھ پیر بے چارے کے قابو میں نہیں اور دماغ ایسا ہے جیسے چھوٹے بچے کا۔ وحید چمچے کے ساتھ وہ کئی برس سے گول پیٹھے آ رہے ہیں کیوں کہ یہیں کہیں آگے پیلا ہاؤس کے پاس یا فارس روڈ کی کسی بلڈنگ میں ریٹا بائی کا کوٹھا ہے۔ جانی میاں اس ریٹا بائی پہ عاشق ہیں۔ سال میں تین چار بار اپنی امّاں جانی سے سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں روپے لے کر بمبئی آتے ہیں اور ریٹا پہ نچھاور کر کے اپنے رکھوالے کا ہاتھ پکڑ گاڑی چڑھ جاتے ہیں۔ دوبارہ آنے کے لیے رامپور چلے جاتے ہیں۔ سلطان بھائی سے کہیں ان لوگوں کی جان پہچان ہو گئی تھی۔ اس لیے بمبئی میں یہ دکان، گوالیار سائیکل مارٹ، جانی میاں اور وحید چمچے کا پہلا اڈّا بنتی ہے۔
راوی،
تو ایک روز گول پیٹھے کے مین بازار میں، گوالیار سائیکل مارٹ کے آگے پھر ٹیکسی رکی اور دونوں ایک ایک تھیلا اٹھائے اتر پڑے۔ وحید نے ٹیکسی والے کو پیسے تھمائے اور جانی میاں کا ہاتھ پکڑ دکان کی طرف چلا۔ دکان کو پہچان کے جانی میاں کِلکاریاں مارنے لگے۔
نئے رم پر تانیں کستے ہوے ایک فضول سے لونڈے نے انھیں دیکھا اور ٹھٹّھا مار کے دوسرے فضول سے لونڈے سے کہا، ’’لے بے! پھر آ گئے دونوں۔‘‘
دوسرے نے کام سے سر اٹھا کے دیکھا اور پیٹ پکڑ کے ہنسنا شروع کر دیا۔ ’’ابے شوقت! ابے او شوقت! ابے آ کے دیکھ۔۔۔ یہ سلطان بھائی کے رنڈی باز پھر آ گئے۔‘‘
دکان منٹ بھر میں جیسے تلپٹ ہو گئی۔ اندر اسٹور سے اور برابر کی گلی سے تھڑے کے ساتھ قطار در قطار سجی کرائے کی چمچماتی سائیکلوں کے درمیان سے اٹھ اٹھ کے، اپنے کام روک کے، طرح طرح کے مددگار لڑکے اور مستری اور پنکچر جوڑنے والے، مسکراتے، دانت دکھا دکھا کے ہنستے ہوے، ٹھٹّھے لگاتے ہوے آئے اور انھیں گھیر کے کھڑے ہو گئے۔
ایک پرانا مستری بہت سے نئے ٹائروں کو دونوں بازوؤں میں پہنے برابر والی دکان سے نکلا۔ اس نے لڑکوں کو بھیڑ لگاتے دیکھ کے ڈانٹا، ’’چلو بے، کیا بھیڑ لگا رکھی ہے؟ کام کے ٹیم کائے کو اُدھم کر رہے ہو؟‘‘ پھر جب لڑکے منتشر ہوے تو پرانے مستری نے جانی میاں اور ان کے چمچے کو سائیکل مارٹ کے بیچوں بیچ اسٹولوں پر ٹکے، اپنے تھیلے گودوں میں رکھے چپ چاپ دیدے گھماتے دیکھا تو لڑکوں کے جوش و خروش کی اصل وجہ سمجھ کے اس کی جھونجھل ختم ہو گئی۔ وہ مسکرا دیا اور جانی میاں کی طرف دیکھ کے بولا، ’’اچھا! یہ آیا ہے۔ تو پھر آ گیا بے گھونچو؟۔۔۔ جبھی تو کہوں یہ لمڈے کائے کو بھیڑ لگائے کھڑے ہیں۔‘‘ پھر وہ خوش دلی سے ہنستا ہوا اسٹور میں چلا گیا۔
لڑکوں میں سے وہ جس نے سب سے پہلے انھیں دیکھا تھا اور دوسروں کو ان کے آنے کی خبر دی تھی، اٹھا اور مسکراتا ہوا پاس آ کھڑا ہوا۔ وہ بھی اصل توجہ جانی میاں کو دے رہا تھا۔ اس نے ان کی گود میں رکھے بیگ کا تسمہ پکڑ کے کھینچا، ’’ہئے ہَئے! آشِق جانی! کیا کیا لے آئے اپنے ماشوق کے لیے، ہمیں تو دِخاؤ۔‘‘
جانی میاں نے بیگ اپنی طرف کھینچا اور چھوٹے بچے کی جھنجھلائی ہوئی چنچنی آواز میں کہا، ’’اَزے ے۔۔۔ نئیں کَزو و۔۔۔‘‘ اُن کے چہرے پر ستائے جانے کی الجھن اور بےبسی تھی۔ وحید چمچے نے لڑکے کا ہاتھ تسمے سے ہٹا دیا اور کہا، ’’مت ستاؤ انھیں۔ میں سلطان بھائی سے شکایت کر دوں گا۔‘‘
دھمکی کارگر ہوئی، پھر بھی لڑکے نے لوفرپن سے کہا، ’’چل بے۔۔۔ سلطان بھائی سے شکیت کرے گا۔ سالے بونگے! کہہ کے تو دیکھ۔ بھول گیا پچھلی دفے کا؟‘‘
دوسرے لڑکے اور مستری پچھلی بار کا قصّہ یاد کر کے ہنسنے لگے۔
زوّار جو ہمیشہ کا بھلامانس تھا اور ہنس نہیں رہا تھا، سب کو گھور کے دیکھنے لگا۔ وحید چمچے نے اسی سے پوچھا، ’’کاں گئے ہیں سلطان بھائی؟ کچھ پتا ہے؟‘‘
زوّار سنجیدگی سے بولا، ’’بلٹی چھڑانے گئے ہیں۔ دیر سے آئیں گے۔‘‘
’’کتنی دیر سے؟‘‘
دوسرے سب کام میں مصروف ہو چکے تھے۔ زوّار مستری نے کنکھیوں سے قریب کے لڑکوں کو پڑتالا، انھیں متوجہ نہ پا کر دھیرے سے بولا، ’’دیر لگ جائے گی۔۔۔ کھانا کھا لیا تم لوگ نے؟‘‘
جانی میاں جو بڑی توجہ سے زوّار کی باتیں سن رہے تھے اور اس کی صورت تکے جا رہے تھے، کند ذہنی سے مسکرائے اور اونچی آواز میں خوش ہو کے بولے، ’’نہیں کھایا کھانا۔۔۔ بوہوت بھُونک لگ زَئی ہے۔‘‘
زوّار نے ہاتھ کا کام چھوڑ دیا۔ اٹھا اور اپنی پتلون کی ِسیٹ پہ دونوں ہاتھ صاف کیے۔ اسی طرح سنجیدگی سے بولا، ’’جوزف کے اسٹال پر چلو تم دونوں۔ میں اُدھر ہی آتا ہوں۔‘‘
جانی میاں نے حلق سے خوشی کی آواز نکالی اور بیگ فرش پر رکھ کے اٹھ کھڑے ہوے، ڈگمگاتے ہوے چلے دکان کے باہر۔ زوّار جو اب پھر اسی پتلون پر ہاتھوں کا گریز صاف کر رہا تھا، آہستہ سے کہنے لگا، ’’تھیلا چھوڑ کے مت جاؤ۔۔۔ واپس آؤ گے تو اس میں کچھ نہیں ملے گا۔‘‘
وحید چمچے نے جانی میاں کا بیگ بھی اٹھا لیا۔ دونوں سائیکل مارٹ سے نکل کر جوزف کے اسٹال کی طرف چل پڑے۔ جانی میاں وحید کی بانہہ پکڑے ناہموار قدموں سے جا رہے تھے، زوّار دھیرے دھیرے چلتا ہوا ان سے پہلے پہنچ گیا۔
جوزف کا اسٹال سڑک کے کنارے ریل کی پرانی پٹریوں پر ٹکا ہوا لکڑی کی کیبن میں تھا۔ کیبن میں ایک آدمی کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی اور وہ ایک آدمی اندر موجود تھا۔ اس نے سب سودا سلف تین رخوں پہ لگے تختوں پر سجا رکھا تھا۔ کیبن میں دو سمووار اور بسکٹوں، پیسٹریوں، کریم رولوں سے بھرا، شیشے لگا نعمت خانہ تھا۔ دس بارہ آدمی چینی کی موٹی اُتھلی پیالیوں میں خوب گہری چائے پی رہے تھے۔ جانی میاں کو دیکھ کے اندر کھڑا آدمی ’’ویل ویل‘‘ کہہ کے ہنسا۔ اس کے سامنے کے دونوں نکیلے دانتوں پر سونے کا خول چڑھا تھا۔ کسی بھی طرح سے توہین نہ کرتے ہوے وہ جانی میاں کو ’’ڈیم بلاڈی‘‘ کر کر کے خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ وحید یا زوّار کو دیکھے بغیر وہ جانی میاں میں مصروف ہو گیا۔ ’’کم آن جونی! پرنس رَیمپوری! سالا اتنا دن کِدر ریا تم؟ آشکی کرنے اپنا گریٹا گاربو کے پاس کائیکو نہیں آیا؟‘‘
جانی میاں پھول کی طرح کِھل اٹھے۔ ’’جوسف بھائی! بوہوت بھُونک لگ زئی ہے۔‘‘
جوزف ٹھٹّھا مار کے بولا، ’’آئی نو، آئی نو۔۔۔ او کے، سالا جونی پرنس! میں تیرے کو اَبی مَسکا پاؤں دیتا ہے۔ صبَر کرو۔‘‘
جانی میاں نے تالیاں بجاتے ہوے وحید اور زوّار کو باری باری مشورہ دیا، ’’صبَز کرو۔۔۔ صبَز کرو۔‘‘ پھر وہ ندیدے پن سے جوزف کے دوسرے گاہکوں کو بسکٹ پیسٹری کھاتے چاے پیتے دیکھنے لگے۔
جوزف نے بَن برابر چھوٹی ڈبل روٹیوں پر اپنی چوڑی پترے جیسی چھُری سے نمکین پیلے مکھن کی ایک ٹکیہ لگائی۔ بمبئی کی زباں میں یہ مسکا پاؤں تھا جسے اس نے دو نصف دائروں میں کاٹ کے ایک ایک پیسٹری کے ساتھ تام چینی کی پلیٹوں میں رکھ کے ان دو کی طرف سرکا دیا اور مشینی انداز میں کہا، ’’دو فل مسکا پاؤں، دو پیسٹری، دو ڈبل چائے، پاؤلی کم دو روپیہ۔۔۔‘‘ یعنی ایک روپے بارہ آنے۔ وحید نے پیسے نکالنے کو جیب میں ہاتھ ڈالا تو زوّار بولا، ’’رک جاؤ، رہنے دو۔ پیسے میں دوں گا۔‘‘
جانی میاں نے اپنا مسکا پاؤں منھ کی طرف بڑھایا اور زوّار کی باتیں سن کے رک گئے۔ طوطے کی طرح اس کی بات دہرانے لگے، ’’زُک جاؤ، زَینے دو، پیسے میں دوں گا۔۔۔ زُک جاؤ، زَینے دو، پیسے۔۔۔ زُک جاؤ زَینے دو۔۔۔‘‘ پھر جب وحید نے ان کا کندھا تھپک دیا تو مسکا پاؤں منھ میں ٹھونس کے انھوں نے بے ترتیبی سے منھ چلانا شروع کر دیا۔
ناشتہ کر کے دونوں سائیکل مارٹ میں واپس آ گئے۔ زیادہ تر مستری اور لڑکے اِدھر اُدھر بیٹھے کھا پی رہے تھے۔ دونوں پھر درمیان میں پڑے اسٹولوں پر جا ٹکے اور گودوں میں بیگ رکھ کے ہونّقوں کی طرح ان مسکراتے ہوے لڑکوں مستریوں کو دیکھنے لگے۔ لڑکے خاموشی سے آپس میں اشارے کر رہے تھے اور بے آواز ہنس رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد اُن کی خاموشی کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔ سلطان بھائی آ گئے تھے۔ وہ اسٹور میں تھے۔ باہر آئے تو ان دونوں کو دکان میں دیکھ کے بولے، ’’ارے شہزادے! کب آئے؟‘‘
جانی میاں سلطان بھائی کو دیکھ، کِلکاری مار کے بولے، ’’ہووں اوں !۔۔۔ ابھی آئے۔۔۔ بوہوت بھُونک لگ زئی تھی۔ جوسف بھائی نے پیسٹی خِلائی چا پلائی۔‘‘
سلطان بھائی جانی میاں کی طرف لاڈ سے دیکھ رہے تھے۔ دھیرے سے بولے، ’’اچھا؟ وا وا!‘‘ وحید سے پوچھنے لگے، ’’سیدھے اسٹیشن سے آ رہے ہو؟‘‘
وحید چمچے نے کہا، ’’ہاں۔‘‘
’’گھر کیوں نہیں چلے گئے؟ کھانا کھا کے شام تک وہیں لیٹتے بیٹھتے۔‘‘
جانی میاں بول پڑے، ’’گھر نہیں گئے۔ بوہوت بھُونک لگ زئی تھی۔ پیسٹی کھائی چا پی۔‘‘
سلطان بھائی پیار سے بولے، ’’ہاں؟ اور کچھ کھاؤ گے؟‘‘
’’ہاں آں۔۔۔‘‘ جانی نے حلق سے خوشی کی کوئی آواز نکالی جس سے سامنے کام کرتا بیٹھا ایک لڑکا جو دیر سے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہا تھا ’’پھَپ پھُو!‘‘ کر کے ہنسی میں پھٹ پڑا۔
سلطان بھائی کے چہرے کی نرمی پلک جھپکتے میں غائب ہو گئی۔ انھوں نے ہاتھ میں اٹھایا ہوا اسکرو ڈرائیور کھینچ کے لڑکے کو مارا تو ٹھک کی آواز کے ساتھ اس کا ہینڈل لڑکے کے گھٹنے پر لگا۔ لڑکا چیخا۔ سلطان بھائی نے اسے بہت بھاری گالی دی۔ لڑکا بسورتا، لنگڑاتا ہوا دکان سے باہر چلا گیا۔
جانی میاں لڑکے کی چیخ اور گالی سن کے خود بسورنے لگے تھے۔ وحید نے تسلّی دیتے ہوے اُن کے شانے پہ ہاتھ رکھ دیا۔ جانی میاں ٹھیک ہو گئے۔
سلطان بھائی چور سے بن گئے۔ اُن کا موڈ بگڑا ہوا دیکھ کے سب مستری مددگار اپنا اپنا کام سنبھال دکان سے نکل گئے۔ کچھ کرائے والی سائیکلوں کے پاس جا کھڑے ہوے اور بلا ضرورت کپڑا مارنے لگے۔ کچھ نے بیڑی سلگائی۔ لنچ کا وقت ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔
سلطان بھائی نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا، تجوری کھولی، پانچ پانچ روپے کے نوٹ نکال کے چمچے کی طرف بڑھا دیے۔ ’’لو وحید! جانی میاں کو گھر لے جاؤ۔ ٹیکسی پکڑ لینا۔ رستے میں کریم سورتی کے ہوٹل سے چکن رَوس لے لینا۔ بولنا سلاد بھی دے۔ دہی بھی لیتے جانا۔‘‘
وحید پیسے نہیں لے رہا تھا۔ بولا، ’’ہیں میرے پاس۔ جانی میاں کی والدہ نے بارہ سو روپے دیے ہیں اِس دفعے۔‘‘ بارہ سو اُس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔
سلطان بھائی نے وحید کا کندھا تھپکا۔ ’’وہ سنبھال کے رکھو۔ جاؤ۔۔۔ انھیں ہاتھ پکڑ کے سڑک پار کرانا۔‘‘
وحید نے کہا ’’اچھا” اور سلطان بھائی کے دیے ہوے پیسے جیب میں ڈال، جانی میاں کے پنجے میں پنجا پھنسا، دکان سے اتر گیا۔
زوّار،
سلطان بھائی کو پورے علاقے میں ان کے نرم اور سخت مزاج کی وجہ سے اور کاروبار میں ایمان داری اور پیسے کی وجہ سے پسند کیا جاتا تھا۔ انھیں اس وجہ سے بھی پسند کیا جاتا تھا کہ وہ شراب، سگریٹ اور فارس روڈ کی عورتوں سے دور رہتے تھے۔ سلطان بھائی جمعرات کی جمعرات قوّالی سننے سوناپور کے قبرستان ضرور جاتے تھے اور وہ بھاری بھاری گالیاں دے کر مار دھاڑ کر کے اپنے سب مستریوں اور لڑکوں کو ٹائٹ رکھتے تھے۔ انھیں فارس روڈ اور اس سے نکلنے والی گلیوں کی طرف دیکھنے بھی نہیں دیتے تھے۔ کہتے تھے ان باتوں سے بیماریاں ہوں گی اور روزگار میں نحوست پھیلے گی۔ اور کہتے تھے، ’’روزی، بھیّا، سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘ خلاف ورزی کرنے والے کو سلطان دو بار دھمکی دیتے تھے۔ تیسری بار کی رپورٹ پہ بید لے کے جم کے اس کی ٹھکائی کرتے اور حساب صاف کر کے سامان اس کا سڑک پہ پھنکوا دیتے، اور بس، ہاتھ جھاڑ لیتے۔
مگر یہ جانی میاں تو رامپور سے آتے ہی تھے گانا وانا سننے کو۔ وہ اور ان کا چمچا ریٹا بائی کے کوٹھے پہ ایک دو روز پڑے رہتے، پھر جانے سے پہلے سلطان بھائی کسی جمعرات کو سوناپور میں ان کے ساتھ قوّالی سنتے اور بامبے وی ٹی کے اسٹیشن پر لے جا کے رامپور کا ٹکٹ دلا دیتے اور انھیں گاڑی چڑھا دیتے۔
تین چار برس سے ایسا ہی چل رہا تھا۔
اس دفعے جو جانی میاں آئے تو سلطان بھائی کی چالی کے نئے فلیٹوں میں پانی کا کوئی مسئلہ تھا، اس لیے انھوں نے مجھے بھیجا کہ جاؤ کچھ کرو۔ میں نے ان کے نوکر اور فلیٹوں کے چوکیدار کو بالٹیاں دے کر برابر والی بلڈنگ میں بھیجا، پانی منگایا، کس لیے کہ شام کو جانی میاں نہائیں گے دھوئیں گے، گانا سننے جائیں گے۔ کھانے کے بعد سلطان بھائی نے پھر مجھے بھیجا کہ ٹیکسی لا دوں۔ ٹیکسی آ گئی تو جانی میاں کو سوار کراتے ہوے وحید کو سمجھانے لگے کہ رات میں جب بھی میاں گھر آنے کو کہیں ٹیکسی کر لینا۔ پیدل مت لانا۔ تمھیں پتا ہے، فارس روڈ کے فلاں نکڑ پر رات بھر ٹیکسی ملتی ہے۔ ٹیکسی والے کو چار آنے زیادہ دینا، وہ آگے بڑھ کے بلڈنگ کے چوکیدار کو اٹھا دے گا۔ جب تک تم لوگ گاڑی میں ہی بیٹھنا۔ اترنا مت۔ اور بھی پتا نہیں کیا کیا۔۔۔ حالاں کہ سلطان بھائی جانتے تھے کہ جانی میاں صبح سے پہلے ریٹا کا ٹھکانا نہیں چھوڑیں گے۔
راوی،
ریٹا بائی والی بلڈنگ کے سامنے دونوں ٹیکسی سے اتر گئے۔ وحید چمچے نے ٹیکسی کو فارغ کر دیا۔ ان گلیوں میں سلاخوں والے شوکیس یا ’’پنجرے‘‘ نہیں تھے جو اس پاڑے کی پہچان ہیں۔ فلیٹوں پر ٹکی ہوئی بیسوائیں یہاں ذرا رکھ رکھاؤ سے کاروبار کرتی تھیں۔ پنجروں میں کھڑی مرغیوں، بطخوں کی طرح وہ خود کٹکٹاتی چیختی نہیں تھیں۔ ان کی جگہ اونچی آواز میں یہاں ریڈیو سیلون بجایا جاتا تھا۔ چابی والے گراموفون باجوں پر سجّو بائی بڑودکر، کالو قوّال میرٹھ والے اور کملا جھریا کے رکارڈ لگائے جاتے تھے۔ کہیں ’’روزنداری‘‘ سازندے اپنے سازوں کو ٹھونک بجا کے گاہکوں کو متوجہ کرتے اور اس طرح اپنی دہاڑی پکی کرتے تھے۔
ریٹابائی والی بلڈنگ کے نیچے پہنچے تو وحید نے سنا پہلے مالے کے فلیٹ میں گت بج رہی تھی۔ وہاں مُجرا شروع تھا۔ شاید شوشو ناچ رہی تھی۔ ریٹا بھی ناچ کے شائقین کے لیے روزنداری پر شوشو ہی کو بلواتی تھی۔ ناچنے کے نام پر وہ جو کچھ کرتی تھی اُس سے گاہکوں کی تسلّی ہو جاتی ہو گی، جبھی تو وہ ڈیڑھ دو سال سے ایمرجنسی ڈانسر کے طور پر کوٹھوں پہ بلوائی جاتی اور سارے سال مصروف رہتی تھی۔ کوٹھوں پر شوشو ڈانسر کی طرح روزنداری میوزی شیئن بھی بلائے جاتے تھے جو اپنا ’’کام بجا کے”، پیسے لے کے چلے جاتے تھے۔ یہ بڑے فتنہ انگیز، فقرے باز قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ خود کو یہ مراثی یا میراثی کہتے تھے۔ ساز بجانا چاہے جانتے نہ ہوں، پھُلکا اُڑانا خوب جانتے تھے۔ ریٹا بائی کا کوٹھا ان سازندوں کے لیے جیسے گھر آنگن تھا۔ کہیں کام نہ ملتا تو ویسے ہی آ کے ریٹا کی بیٹھک میں پڑے سازوں کی سروسِنگ کر کے چلے جاتے۔
اگر ریٹا بائی یا کوئی مہمان آرٹسٹ گانے کا اشارہ دیتی تو یہ سازندے وائلن سارنگی کے تار ملا کے، طبلوں کے لنگر لنگوٹ کس کے، ہارمونیموں کی سانسیں سنوار کے اپنی اپنی جگہ سنبھال لیتے، ورنہ گاہکوں کے انتظار میں بیڑیاں پیتے، غیبت کرتے اور اُس وقت تک آپس میں چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے کہ جب تک سیڑھیوں پہ تماش بینوں کے قدموں کی چاپ نہ سنائی دے۔ گاہک کے آتے ہی وہ سارنگیوں پر گز پھیرنے لگتے، طبلے کھڑکانا شروع کر دیتے اور دھونکنیاں دھونک دھونک کے ہارمونیموں کی چابیوں پر انگلیاں دوڑاتے جیسے بس ریٹا بائی کے اشارے کی دیر ہے۔
ریٹا بائی کی طرح یہ سازندے بھی سیڑھیاں چڑھ کے آنے والے نئے ملاقاتیوں کو پہلے تین چار منٹ میں جان لیتے تھے کہ کیا ہیں۔ گانے کی سمجھ رکھنے والا تو خیر یہاں کیا آتا ہو گا۔ زیادہ تر تو فلمی گانوں کے رسیا آتے تھے۔ سازندے فوراً سمجھ لیتے تھے کہ فلمی گانے چلیں گے، غزل سنی جائے گی، راگ راگنیوں کی فرمائش ہو گی یا کچھ نہیں چلے گا کیوں کہ یہ گاہک ایک دم اوپر کے مالے کا ہے۔ کچھ دیر یہاں جھک مار کے اوپر والے مالے کی سیڑھیاں چڑھ جائے گا اور وہاں جھک مارے گا۔
روزنداری سازندے بیٹھک میں ہوتے تو اپنی کوڈ زبان میں بات کرتے تھے۔ جیسے ہی کوئی نیا پنچھی بیٹھک میں داخل ہوتا یہ ایک دوسرے کو سگنل دے کے دھیمی آواز میں جیسے اس کا استقبال کرتے۔ اگر کوئی خوب پیے ہوے لڑکھڑاتا چلا آ رہا ہے تو ایک سازندہ دوسرے کو خبردار کرتا، ’’لے بے سنبھال! یہ تیرتا ہوا آ رہا ہے۔‘‘ دوسرا سر ہلاتے ہوے اتفاق کرتا کہ ’’ہاں بھئی اب تو وہی چلے گی کہ جالِم سراب ہے ابے جالم سراب ہے۔‘‘ غزلوں کی فرمائش کرنے والے ان کے کوڈ میں چپکو، جونک یا ’’صاحبےجَونک‘‘ کہلاتے تھے اور بہت پرانے گیتوں کے شائق ’’سروتا کہاں بھولیائے گروپ۔‘‘ کبھی سازندوں کا اندازہ غلط بھی ہو جاتا تھا یعنی کوئی دیکھے سے غزل سننے والا لگتا مگر آتے ہی سروتا کہاں بھولیائے ٹائپ گانے کی فرمائش کر دیتا تو سازندے آپس میں بڑے خفیف ہوتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھنّا کے سر کھجاتے ہوے پاس والے سے کہہ دیتا ’’دیکھا؟ سالے نے کیسا دایاں دِکھا کے بایاں مارا ہے۔‘‘ برابر والا آگہی میں سر ہلاتا، زمانے کا شکوہ کرتا کہ ’’ہاں بھائی! ایمان داری تو جیسے اُٹھتی جا رہی ہے۔۔۔ کوٹھوں سے۔‘‘
جانی میاں اور وحید ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ریٹابائی کی بیٹھک میں داخل ہوے تو بِلُوچَن طَبلیے نے طبلے پہ ہاتھ مار کے نعرہ سر کیا، ’’جانی! آؤ میرے جانی!‘‘ اور بیٹھک سے آوازوں کی ایسی بھنبھناہٹ اٹھی جیسے ایک فائر پہ بھرے کھلیان سے سَو چڑیاں بھرّا مار کے اُٹھتی ہیں۔ پھر اس آواز پہ طبلے کی چال غالب آ گئی۔ بلوچن نے اپنی جوڑی پہ ’’تَتَت تھا، تَتَت تھا، تَتَت تھا، تری گتَت تھا‘‘ نکال کے جانی میاں کا استقبال بجایا۔
جانی میاں منھ کھول کے ہنسے اور خوشی سے اُمگ کے آواز دی، ’’ہے اے اے رِی تا!‘‘
ریٹابائی پھولوں کے گہنے پہنے تکیے سے ٹکی بیٹھی چھوٹی سی ایک ڈبیا کے شیشے میں اپنے دانتوں کی مسّی چیک کر رہی تھی اور اس کوشش میں اپنے خوب صورت دہانے کو توڑ موڑ رہی تھی۔ اس نے بلوچن کا نعرہ سن کے شیشہ سامنے سے ہٹا کے دیکھا کہ جانی میاں اپنے چمرودھے جوتوں سمیت فرشی نشست پر چڑھے چلے آتے ہیں تو فی الحال اس نے درگزر کیا اور لوفر مردوں کی طرح سینے پہ ہاتھ مار کے بولی، ’’ہائے جانی! تُو آ گیا میرے ماشوک؟‘‘ پھر وہ اپنے سرو قد سے اٹھی اور پازیب بجاتی جانی میاں کی طرف چلی۔ بلوچن نے بجایا، نادِر دِھن نا، نادِر دِھن نا، نادِر دِھن نا۔ ریٹا نے قدم بدلا۔ ترِی کٹ دِھن نا۔ بلوچن اس چال کی سنگت میں تھا، اس نے سچی تال دی۔ ریٹا نے اسے دیکھ کے ایک بار تعریف میں سر خم کیا۔ بلوچن داد وصول کرتے ہوے جوڑی پہ ایک دم جھک گیا۔ ریٹا بڑھ گئی۔ اس کا شاہانہ خرام پست درجے کے اس تمام چھچھورے بازاری گرد و پیش میں یوں لگتا تھا جیسے بلبلے اُٹھاتی کیچڑ پہ زرِ خالص کی چھُوٹ پڑتی ہو۔
جانی میاں نے اپنی ریشمی کُرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا، اوبڑ کھابڑ پنجے میں دبوچے ہوے پانچ روپے والے چھ آٹھ نوٹ نکالے اور جب ریٹابائی تنُولکر کا شمشاد قد میاں کے آگے سلام کو جھکا تو انھوں نے حلق سے بے انتہا مسرّت کی آوازیں نکالتے اور اپنے کرتے پہ تقریباً رال گراتے ہوے مٹّھی کو چار چھ بار ریٹا کے سر کے گرد گھمایا، پھر سارے نوٹ برابر میں بیٹھے جگن ہارمونیم والے کو پکڑا دیے۔
ریٹا نے کنکھیوں سے دیکھا اور ’’حرّام کے!‘‘ کہتے ہوے جگن ہارمونیم والے کے پنجے میں آئے مڑے تڑے نوٹوں پہ جھپٹّا مارا، پھر ہنستے اور جانی میاں کو آداب کرتے ہوے وہ سب اس نے اپنے بلاؤز کے گریبان میں ٹھونس لیے۔ جگن کے سوا تمام سازندوں اور پڑوس کی آئی ہوئی نائکہ نے مسرّت کا نعرہ بلند کیا۔ ’’ہے اے شاباس!‘‘
بِلوچَن طبلیے نے سلامی بجائی۔ جانی میاں اس تال پر اپنے بےڈول سراپے کو گردش دیتے ہوے اٹھے ہی تھے کہ ریٹا نے شانوں پہ ہاتھ رکھ کے وزن ڈالتے ہوے انھیں بٹھا دیا۔ پھر اس نے برابر میں اُداس بیٹھے اپنے بوڑھے سارنگیے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ’’دَدّا فےجُو! ایک اکنّی دینا۔‘‘ فےجو نے اسی اداسی سے اپنی قمیص کی جیب میں ہاتھ ڈالا، ریزگاری نکالی، ایک اکنّی منتخب کی اور ریٹا کو پکڑا دی۔
ریٹا جانی میاں پہ جھکی تو پھولوں میں گندھی اس کی چوٹی میاں کے چہرے سے آ لگی۔ انھوں نے بڑی پُر شور چھینک ماری اور نائکہ ہنس کے بولی، ’’ہے شاباس!‘‘
ریٹا نے ہنستے ہنستے مانگے کی وہ اکنی میاں کے سر کے گرد تین بار گھمائی اور جگن ہارمونیم والے کی گود میں ڈال دی۔ جگن نے بُرا سا منھ بنا کے چٹکی سے وہ اکنّی اٹھائی، جیسے سکّہ نہ ہو مردہ کیڑا ہو، اور ’’آآآااا‘‘ کے ساتھ لَے کاری کرتے اور پیٹی کے ’’اُوپرلے‘‘ نوٹ پہ انگلی ٹکا کے، گایکوں کی طرح ہاتھ چلاتے ہوے اسے کھڑکی سے باہر اُچھال دیا۔
بوڑھی نائکہ نے ایک بار اَور ’’ہے شاباس!‘‘ کہا۔
جانی میاں تالی بجانے لگے۔ اب سیڑھیوں پہ لوگوں کے چڑھنے کی آہٹ سنائی دی۔ سب سنجیدہ ہو گئے۔ ریٹا کے اشارے پر جگن ہارمونیم والا اٹھا۔ اس نے اپنا بھدّا ہاتھ بڑھا کے جانی میاں کو بانہہ سے پکڑ کے اٹھانا چاہا۔ میاں نے احتجاج کی تیز آواز نکالی ’’نااائیں! نہیں کزو!‘‘ جگن نے مضبوط گرفت میں ان کی بانہہ کو جھٹکا دیا۔ ریٹا نے سمجھانے کی آواز میں مگر غصّے سے آنکھیں دکھا کے کہا، ’’جاؤ۔ اُدھر جا کے بیٹھو۔ چلو۔‘‘
جانی میاں مان گئے۔ وحید چمچے نے جگن کے ہاتھ سے میاں کی بانہہ چھڑائی اور جہاں دیوار کے ساتھ بیٹھنے کو کہا گیا تھا میاں کو اُدھر لے چلا۔ وہ ابھی تک جوتے پہنے ہوے تھے۔ ریٹا نے کھردری، بے مروّت آواز میں وحید سے کہا، ’’جوتے اتار اس کے اور اسے سمجھا کے رکھ۔ بول کھاموش بیٹھنے کا ہے۔۔۔ میمان آ رئے ہیں۔‘‘
جانی میاں نے ہاں میں سر ہلایا اور دھیرے سے ریٹا کی بات دہرائی، ’’میمان آ رئے ہیں۔۔۔ میمان آ رئے ہیں۔‘‘
بیٹھک پہ تماش بین چڑھ آئے تھے۔ جگن نے ہارمونیم کھینچ کے گت بجانی شروع کر دی۔ بِلوچن طبلیا، جو کوئی طبلچی میراثی نہیں ذاتی کا دھوبی تھا اور اسی لیے بِلوچن (بلیچنگ پاؤڈر) کے نام سے مشہور تھا، ایک دم جوش و خروش سے سنگت کرنے لگا۔
کام کا وقت شروع ہو گیا تھا۔
ریٹا کا گانا شروع ہوا تو جانی میاں نے وہی سب کیا جو دوسرے تماش بین کر رہے تھے۔ وہ خوش ہو ہو کے تالی بجاتے، جب جی چاہتا جیب سے نوٹ نکال کے ریٹا بائی کو پیش کر دیتے۔ پھر وہ دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھے بیٹھے سو گئے تو کسی چھچھوری نوچی نے، جو انھیں پہلی بار دیکھ رہی تھی، کھونٹی پہ ٹنگی گوٹا لگی پشواز اُتار میاں پر ٹانگ دی۔ ان کا چھوٹا سا گھونگھٹ بھی نکال دیا۔ تماش بینوں میں سے ایک، جو نوچی کو برابر گھورے جا رہا تھا، زور سے قہقہہ مار کے ہنسا۔ وحید نے جانی میاں کے اوپر سے پشواز ہٹا لی۔ اُس وقت وہ نیند میں آسودہ بچے کی طرح مسکرائے تھے۔ یہ دیکھ کے باقی کے تین تماش بین بھی ہنس پڑے۔ ددّا فےجُو نے اداسی سے اور ریٹا نے خنجر آنکھوں سے بے ڈھب ٹھٹھول کرنے والی نوچی کو دیکھا۔ وہ سمجھ گئی کہ اس بےضابطگی پر بعد میں ریٹا اسے گالیاں سنائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ دو ایک ہاتھ بھی جڑ دے۔
بارہ بجے تک۔۔۔ جو تماش بینی کا سرکاری وقت تھا۔۔۔ یہ آون جاون لگی رہی۔ بارہ کے بعد علاقے کے تھانے والوں نے کچھ دیر اَور صرف ایمرجنسی کیسوں کو کچھ لے لِوا کے کوٹھوں کی سیڑھیاں چڑھنے دیں۔ پھر یہ سلسلہ بھی ختم ہوا۔ ایک ایک دو دو کر کے کوٹھوں کی روشنیاں بجھنے لگیں۔ سازوں کی آوازیں ختم ہوئیں۔ اوپرلے مالے تک انتہائی ہنگامی ضرورت میں جانے والے بھی اکادکا رہ گئے۔ پھر پولیسیوں نے خواہ مخواہ منڈلانے والوں کو گالیاں دینا، بید مارنا اور سیٹیاں بجا بجا کے علاقے سے نکالنا شروع کر دیا۔ ایک بجے تک سب جا چکے تھے۔
ریٹا تنولکر نے سیڑھیوں پر جا کے قفل ڈال دیا۔ اس نے بیٹھک کے قالین پر لانڈری کی تازہ دھُلی چادر پھیلا دی۔ تب کہیں آبکاری محکمے کے انوسٹی گیٹنگ ایجنٹ کو، جس کا اصل نام آئی بی جھا تھا، اس نے اپنی سہ ماہی رپورٹ لکھانی شروع کی۔
وہ جو جانی میاں بنا ہوا تھا، اپنا سوانگ بھُلا کے گاؤ تکیے پہ سر رکھے بے آرامی میں بھی بے خبر سو گیا۔
جانی میاں کا چمچا وحید،
آپ کو ابھی ابھی معلوم ہوا ہو گا کہ میرا نام آئی بی جھا ہے اور میں سرکاری آدمی ہوں۔
قصّہ یہ تھا کہ راجستھان اور سنٹرل انڈیا کی سرحدی بیلٹ پر بہت سی جگہ چوری چھپے افیم کی پیداوار شروع ہو گئی تھی۔ وہ سیدھی بمبئی لائی جاتی تھی، آگے پہنچانے کے لیے۔
یوپی کے طے شدہ اوپیم کلٹی ویشن کے بہترین علاقوں سے بھی کسی قسم کی اینٹری، اندراج کے بِنا چوری کی افیم ادھر بامبے آنے لگی تب سنٹرل گورنمنٹ کو فکر ہوئی۔ آبکاری پولیس کی ناکامی کے بعد معاملہ اوپر تک پہنچ گیا تو سنٹر سے مجھے انوسٹی گیٹنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا۔
ریٹا تنولکر کو چار برس پہلے اوپر والوں نے بھرتی کیا تھا۔ بڑی ایفی شینٹ اور دلیر عورت تھی۔ ویسے مجھے اس کی بیگ گراؤنڈ نہیں معلوم۔ مجھ سے تو بس یہ کہا گیا تھا کہ اس اس طرح کر کے میں گول پیٹھا بمبئی کے علاقے میں سلطان بھائی کی دکان کو اپنا لانچنگ پیڈ بناؤں اور ہر تین چار مہینے پیچھے ریٹا سے رپورٹ لے لے کے اڈوائس کرتا رہوں۔
میں خود حیران ہوا تھا کہ جانی میاں کیریکٹر کا اور ایک پروفیشنل ایکٹر کو ہائر کرنے کا خیال سنٹرل گورنمنٹ کو آیا کیسے، مگر اُس وقت ایک گورا (آئر لینڈ والا) ہمارا باس تھا۔ سنا ہے آئرش لوگوں کو ڈراما اور ادکاری کا بڑا شوق ہوتا ہے۔
خیر، اس نو ٹنکی ٹائپ کام سے آخر آخر میں نے سمجھوتا کر لیا۔ پھر سلطان بھائی نے (جسے خبر نہیں اس پلان کی کتنی جانکاری تھی، یا بالکل نہیں تھی) بہت کوآپریٹ کیا اور میرا کام چل پڑا۔
اس دوران میں بہت سے لوگ پکڑے گئے۔ سمجھو تو ہم نے پورا نیٹ ورک افیون ٹریفک کا توڑ کے رکھ دیا۔
بمبئی کی یہ میری آخری وِزٹ تھی۔ مجھے تین مہینے کی رپورٹ لینا تھی کہ کتنے ’’گدھے” پکڑے گئے (اپنے سامان میں یا بدن پر چھپا کے افیم لے جانے والے گدھے کہلاتے ہیں۔) تو کتنے گدھے، ریٹا اور سلطان بھائی اسٹریجی سے اس مدّت میں اریسٹ ہوے یہ رپورٹ لے کے مجھے بامبے کو گڈ بائی کہنا تھا۔
ایک رات اَور جانی میاں کو ریٹا بائی کے کوٹھے پہ گزارنی تھی۔ پھر اپنا تان طنبورہ لپیٹ کے ہمیں بمبئی چھوڑ دینی تھی۔ ان دوستوں، ریٹا، جوزف، سلطان بھائی اور زوّار سے یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔
گوالیار سائیکل مارٹ سے سلطان بھائی کے گھر پہنچے تھے تو ہم نے ٹیلی فون گھمانے شروع کیے تھے۔ ریٹا بائی کو فون کیا تھا۔ سب سے پہلے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جانی میاں اور ان کا چمچا بمبئی آ گئے ہیں۔
ریٹا سو رہی تھی۔ اس کی گجراتی نوکرانی سے میں نے کہہ دیا کہ ’’اے سنو! بائی سو کے اٹھے تو اسے جرور جرور بول دینا کی بھولا بھائی جوہری کا پھون آیا تھا۔ بائی جرور جرور میرے کو دکان پر پھون کر لیوے۔‘‘
نوجوانی میں اے آئی آر پہ یہ سب ڈرامے بہت کیے تھے میں نے، تو وہ چسکا تو تھا ہی۔ ریٹا کی نوکرانی کو بھولا بھائی جوہری کی طرف سے چھوٹے موٹے گفٹ، لونگ، چھلّا، لاکٹ ملتے رہتے تھے۔ وہ جوہری نام سن کے ’’ہا ہا بھائی!۔۔۔ ہے بھلا، ہے بھلا‘‘ کرتی رہی۔ ریٹا کے اٹھتے ہی پہلی خبر وہ یہی سنائے گی کہ بھولا بھائی کا پھون آیا تھا۔ یہ اس بات کا سگنل تھا کہ جانی میاں بمبئی آ گئے ہیں۔ آج رات میں کسی وقت ریٹا کی بیٹھک پہ پہنچ جائیں گے۔
پرسنلی میں اس عورت سے بڑا اِمپریس ہوا ہوں۔ کبھی وقت ملا تو اسے، ریٹا بائی تنولکر کو، اس کی لائف کو انویسٹی گیٹ ضرور کروں گا۔
کسی انوکھے سسٹم کے حساب سے ریٹا بائی ناکام ایکٹروں، جواریوں اور اسمگلروں کے گدھوں میں بہت پاپولر تھی۔ تماش بینوں کی یہ تین قسمیں سارے سال ریٹا کے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتی اترتی رہتی تھیں۔ ناکام ایکٹروں والی بات سمجھ میں آتی تھی، کیوں کہ مشہور تھا کہ ریٹا خود اپنے وقت کی بڑی مشہور ناکام ایکٹریس تھی۔ فلموں میں چانس، شہرت اور بڑی بڑی رقموں کے خواب دیکھنے والے ایکٹروں کو کہیں سے پیسے ہاتھ آ جاتے تو وہ اس مشہور ناکام ایکٹریس ریٹا کے پاس ضرور آتے تھے۔ ایسے کیسوں کو یہ بہت مہارت سے ہینڈل کرتی تھی۔ ان سے کہتی تھی کہ خود اسے فلموں میں ناکام ہونا ہی تھا کیوں کہ اس میں وہ بات نہیں ہے جو کسی اٹھنے والی ایکٹریس یا ایکٹر میں ہونی چاہیے۔ ریٹا اس تماش بین ناکام ایکٹر میں وہ بات ڈھونڈ کے بتا دیتی کہ یہ دیکھو، تم کو تو جیتنا ہی جیتنا ہے، زیادہ دن مار نہیں کھا سکتے۔ پھر وہ ایکٹر ریٹا کی سیڑھیاں اتر کے نئے ولولے سے فلم اسٹوڈیو کے رستوں پر جوتیاں چٹخانے، خوار ہونے کو چل پڑتا اور بعد میں بھی بار بار آتا۔
جواریوں کے ساتھ ریٹا اپنا گڈ لک والا کھیل کھیلتی تھی۔ کہتی تھی میں اس پاڑے کی سب سے لکی لڑکی ہوں۔ پرسوں تمبولے میں سوا سو روپے جیتے۔ دو مہینے پہلے میرے نام پانچ ہزار کی لاٹری کھلی تھی۔ اس سے میں نے اندھیری میں ایک پلاٹ خرید لیا ہے۔ اب سنڈے کو ریس کھیلوں گی۔ دیکھنا جیتوں گی ضرور۔
اسمگلروں کے گدھوں کو ریٹا شک بھی نہیں ہونے دیتی تھی کہ وہ انھیں پہچان گئی ہے۔ انھیں وہ بمبئی کے بڑے شان دار دھندے بازوں، اسمگلروں کے کڑکی کے دنوں کا حال سناتی تھی۔ پھر ان کا مقابلہ اپنے اس فرضی ٹھیکےدار سے کرتی تھی جس نے اسے یہ فلیٹ خرید کے دیا تھا اور جو ’’حرّام کا جنا‘‘ ریٹا کی آمدنی کا اسّی پرسنٹ کھینچ کے لے جاتا ہے۔ ’’میں تو اِدھر کی اِدھر ہی ہوں۔ اُس نے دیکھو، ورلی میں پھر ایک بلڈنگ خرید لی ہے، میری کمائی سے۔‘‘ اسمگلر کے گدھے میں خود اُسی کے لیے رحم جگانے کے بعد ریٹا اسے اَور نہیں چھیڑتی تھی۔ وہ دوسرے تیسرے پھر آتا اور شراب کے نشے میں، یا ویسے ہی اپنے دل کی کڑواہٹ میں، بیچ کے بڑے آدمی کو، جس کا صرف نام گدھے نے سن رکھا ہوتا، خوب گالیاں دیتا۔ ریٹا بھی اپنے فرضی ٹھیکےدار کو گالیاں دیتی، کوستی اور اس طرح یہ بات پکّی ہو جاتی کہ یہ آدمی فلاں اسمگلر کا گدھا ہے۔ ذرا ٹائم دے کے پہلے بیچ کے بڑے آدمی کو، پھر گدھے کو پکّے ثبوت شہادتوں کے ساتھ اُٹھا لیا جاتا۔ اکثر تو گدھے کو شبہ بھی نہ ہوتا کہ جو دو چار سال کے لیے وہ اندر ہو گیا ہے تو یہ خود اس کی اپنی بک بک کی وجہ سے ہوا ہے۔
اس طرح بیچ کے آدمیوں اور گدھوں کی سپلائی قریب قریب بند ہو گئی ہے۔
اس کا کریڈٹ ریٹا۔۔۔ سائیکل مارٹ۔۔۔ جانی میاں پراجیکٹ کو جاتا تھا۔
خیر۔ ہم نے پراجیکٹ وائنڈ اَپ کیا۔ وہ ایکٹر جو جانی میاں کا رول کرتا رہا تھا، بامبے چھوڑتے ہوے ایک دم سینٹی مینٹل ہو گیا۔ کہنے لگا، ’’میں سلطان بھائی سے ملے بنا بمبئی نہیں چھوڑوں گا۔ وہ گریٹ آدمی ہے۔ اس کو تھینکس ضرور بولنے کا ہے۔‘‘ پھر بولا کہ جوزف اور زوّار کو بھی ملوں گا۔ میں نے سمجھایا بھی کہ مسٹر! چَیپٹر کلوز کرو۔ رات گئی بات گئی۔ مگر وہ سر ہو گیا کہ نہیں جھا صاحب! پلیز! فر گاڈز سیک۔ تو ہم نے سلطان بھائی کے گھر سے اپنے بیگ اٹھائے اور نارمل کپڑوں میں ہم گوالیار سائیکل مارٹ پہنچ گئے۔ ایکٹر نے رامپوری زمینداروں کے کُرتے واسکٹ کی بجائے سفید شرٹ اور سَرج کی کالی پینٹ پہنی ہوئی تھی، ٹائی بھی کھینچ لی تھی اس نے۔ میں نے بھی وحید چمچے کا کرتا پیجامہ لپیٹ کے بیگ میں ڈال دیا تھا۔ میں بش کوٹ پینٹ میں تھا۔
ہم ٹیکسی سے اترے تو جانی میاں کھیلنے والے ایکٹر کے ہاتھ میں دونوں بیگ تھے۔ اس نے جیب سے والٹ نکال کے ٹیکسی کا کرایہ دیا اور جمے ہوے قدموں سے سائیکل مارٹ کی سیڑھیاں چڑھ کے وہ میرے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ تازہ شیو بنائے، کلون لگائے، وہ وہی نظر آ رہا تھا جو وہ تھا، پروفیشنل ایکٹر اور مزے کا آدمی۔
سلطان بھائی، زوّار اور دو لڑکے اس وقت دکان میں موجود تھے۔ وہ سبھی ایکٹر کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے۔
حیرت ان کی نیچرل تھی۔ وہ جانی میاں کے ہم شکل ایک دنیا دار کو دیکھ رہے تھے جو وکیل، ڈاکٹر، انجنیئر۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ لڑکھڑاتا، رال گراتا، کم زور دماغ بچے کی طرح ایک ہی بات دہراتا وہ قابلِ رحم مڈل ایجڈ آدمی کہیں نہیں تھا جسے اتنے برس سے وہ جانتے تھے۔
میں نے اور اُس نے۔۔۔ جانی میاں نے۔۔۔ ہاتھ بڑھا کے سلطان بھائی سے شیک ہینڈ کیا۔ ہم ہلکے سے ہنسے بھی۔
سلطان بھائی کی سمجھ میں ابھی تک کچھ نہیں آیا تھا۔ وہ ہکلا رہے تھے، ’’آپ؟ تم لوگ؟۔۔۔ مطلب تم وحید ہو نا؟ اور یہ۔۔۔‘‘
میں نے کہا ’’ہاں سلطان بھائی! میں وحید تھا۔۔۔ اب نہیں ہوں۔ آئی بی جھا میرا نام ہے۔ آئیے۔۔۔ اندر چلتے ہیں۔ یہاں لڑکے بھیڑ لگا رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں ٹھیک ہے،” سلطان بھائی الجھ کے بولے، ’’بات سمجھاؤ مجھے۔‘‘
میں سمجھ گیا۔ انھیں اوریجنل پلان کی جانکاری نہیں تھی۔
اس لیے ڈی ٹیل میں جائے بنا میں نے انھیں بتایا کہ ہم ریٹا کے ساتھ کس مشن پہ تھے۔ ’’اور سلطان بھائی، آپ نے نہ جانتے ہوے بھی اپنے دل کی نیکی میں ساتھ دیا ہے ہمارا۔ گورنمنٹ کا ہاتھ بٹایا ہے۔ یہ ایک طرح سے بہت بڑی پبلک سروس ہے آپ کی۔ سلطان بھائی! یو آر گریٹ۔‘‘
وہ اسٹول پہ ٹک گئے۔ ایک ایک بار ہم دونوں کو دیکھا۔ مسکرائے۔ بولے، ’’تو تم گدھے پکڑنے آئے تھے؟‘‘
میں نے ہاں میں سر ہلایا۔ وہ بولے، ’’بھیّا! سب سے پہلا گدھا تو تم نے یہی پکڑا، سلطان بھائی؟‘‘
وہ جو جانی میاں بنتا تھا، ہنسا۔ سلطان بھائی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ مجھے گھورتے رہے۔ میں نے سمجھانا شروع کیا کہ ریٹا کی جان کو خطرہ تھا اس لیے کہ وہ افیم والے لوگ بڑے پاورفل ہیں۔ وہ کوٹھوں پہ آتے جاتوں پر برابر نظر رکھے ہوے تھے۔ ہمارے باس کا اڈوائس یہ تھا کہ ایجنٹ کو ریٹا کے پاس بھیجو تو وہ چوری چھپے نہیں جائے۔ جلوس بنا کے گھسے، اُجاگر میں، کیوں کہ جلوس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ ہہہ ہاہا! جیسے ٹرائے شہر کے لوگ لکڑی کے جاسوسی گھوڑے کا جلوس باجے گاجے کے سنگ خود اپنے شہر میں لے گئے تھے۔۔۔ تو اس طرح۔۔۔‘‘
جو جانی میاں بنتا تھا برابر سلطان بھائی کو تکے جا رہا تھا۔ خیر نہیں اس نے کیا دیکھا کہ جو لایا تھا جلدی سے وہ گفٹ پیک اس نے بڑھا دیا۔ بولا، ’’سلطان بھائی! سر! یہ ہاتھی دانت کا گھوڑا لایا ہوں۔۔۔ اُن دنوں کی یاد میں کی جب۔۔۔‘‘
سلطان بھائی نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ مارا۔ پیکٹ گر گیا۔ وہ پھنسی ہوئی آواز میں بولے، ’’مادر کھودو! یہ گھوڑا اٹھاؤ اور دو منٹ میں گول پیٹھے سے نکل جاؤ۔ اور اگر دیری کی تو اُلٹ کے ہم یہ گھوڑا تمھاری پتلون میں ڈال دیں گے۔ چلوت۔۔۔ تمھاری!‘‘ اور یہ کہتے ہوے وہ اسٹور میں چلے گئے۔
ہم نے زوّار کی طرف دیکھا۔ اس نے سامنے پڑا پائپ پانا اُٹھا لیا تھا۔
ہم دونوں جلدی میں سائیکل مارٹ کی سیڑھیاں اتر گئے۔
پتا نہیں کیسے لوگ ہیں بمبئی کے!
زوّار،
وہ دونوں دکان سے اتر گئے، نہیں تو ضرور کوئی رپھڑا بن جاتا۔ الله جانتا ہے سلطان بھائی تو پھر ٹائم لیتے، میرا دل یہ کرتا تھا کہ ان حرامی سرکاری آدمیوں پر پانا لے کے پل پڑوں۔
اُن سالوں کو کچھ پتا ہی نہیں۔۔۔ معلوم ہے سلطان بھائی اِشٹور میں گھسے تھے تو روتے ہوے گھسے تھے۔ آج تک، الله جانتا ہے، کسی نے انھیں ایسی پوجی شن میں نہیں دیکھا۔
میرے کو پچھلا سب پتا ہے۔
سلطان بھائی سے پانچ چھ برس چھوٹا ایک بھائی تھا، کم زور دماغ کا۔۔۔ جان محمد۔۔۔ سب جانو جانو کہتے تھے۔ یہی سلطان بھائی اس کو لیے لیے پھرتے تھے سب جگے۔ اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے تھے۔ نو دس برس کا ہو کے وہ جان محمد مر گیا تو باپ کو، سوتیلی ماں کو چھوڑ چھاڑ یہ بمبئی آ گئے۔ پھر نہیں گئے۔ چوری چھپے یاد بھی کرتے تھے اُس جان محمد کو۔ جب سے یہ حرامی لوگ نے آنا جانا شروع کیا تھا، خوش رہنے لگے تھے سلطان بھائی۔
انھیں سرکاری آدمیوں کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے سالوں کو۔
اچھا ہے ٹائم سے نکل گئے، نہیں رپھڑا بن جاتا۔