جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا

جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا
کل رات میرے گیت کے مکھڑے پہ نور تھا


نغمہ سا چھیڑتی تھیں تجلی کی انگلیاں
توریت کا نزول بہ لحن زبور تھا


وہ ساتھ ساتھ اور پہنچنا تھا اس تلک
ہر آن ایک مرحلہ نزدیک و دور تھا


ہیبت کے بام پر تھی بلاوے کی روشنی
تھی وسوسوں کی شام پہ جانا ضرور تھا


ہر پیچ کوئی واقعہ ہر موڑ کوئی یاد
اس کے بدن کے ساتھ مرا لا شعور تھا


اک بھیڑ مجھ سے منتظر انکشاف تھی
میں تھا مراقبے میں مگر بے حضور تھا